احتیاط سے خرچ کر وں گا، باپ اس بیٹے کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے اور کہتا ہے: بیٹے شرمندگی کی کیا بات ہے؟ اور پھر مزید پیسے دے دیتا ہے۔
ایک بچہ کو نہ دے کر اور دوسرے کو دے کر باپ نے غلط نہیں کیا، بلکہ پہلے کو نہ دے کر اس کی بے ادبی اور غلط اندازِ گفتگو کی سزا دی اور دوسرے کو اس کے ادب وحسنِ انداز کا انعام دیا۔
عقل مند بیویاں جو اپنے خاوند کی مزاج شناس ہوتی ہیں وہ بھی اپنے مطالبات مناسب موقعوں پر مناسب انداز میں رکھتی اور منوالیتی ہیں جب کہ پھوہڑ عورتیں موقعہ ناشناسی اور سخت کلامی کی وجہ سے محروم رہ جاتی ہیں ۔
الفاظ کے زیر وبم، لہجات وانداز کا مخاطب کی طبیعت پر گہرا اثر پڑتا ہے، اسی طرح متکلم کے چہرہ کے نقوش اور زاویے بھی اس کی اندرونی حالت کی تصویر کشی کرتے ہیں ، انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہوتا ہے جس سے اس کے اندرون کی کیفیا ت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے، خوش اخلاقی وبداخلاقی، تواضع وتکبر، معصومیت وڈھٹائی، شرم وبے شرمی، سنجیدگی وشوخی سب کا اندازہ ایک حساس آدمی کو چہرے کے نقوش اور زاویوں سے بیک لمحہ ہوجاتا ہے۔
بلکہ بات کا لہجہ اور چہرہ کے نقوش الفاظ کے معانی تک کو بدل ڈالتے ہیں ، تعزیت کے موقعہ پر مسکر اکر ہنستے ہوئے ہشاش بشاش چہرہ کے ساتھ خوشی کے انداز میں تعزیتی الفاظ کہنا یا خوشی کے موقعہ پر اشکبار حالت میں ، گلو گیر انداز میں غمناک چہرہ کے ساتھ مبارکبادی کے الفاظ کہنا در اصل تعزیت وتہنیت کے معانی کو بدلنا ہے، یہی حال ان کا بھی ہوتا ہے جو قرآن کی آیاتِ عذاب وانذار کو خوش کن آواز اور اسلوب میں اور آیاتِ ثواب وبشارت کو غمناک آواز واسلوب میں پڑھتے ہیں ۔