سے کلمے جنت میں داخلہ کا سبب بنتے ہیں اور بہت سے جہنم میں داخلہ کا باعث ہوتے ہیں ، بلکہ اچھی بات کو صدقہ قرار دیا گیا ہے اور جہنم سے آزادی کا سبب بتایا گیا ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں زبان کے غلط استعمال سے بڑی سختی سے روکا گیا ہے، ایک روایت میں آتا ہے کہ:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔
ترجمہ: مسلمان وہ ہے جس کی دست درازیوں اور زبان درازیوں سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔
زبان کے غلط استعمال میں غیبت، چغلی، حسد، گالی، مذاق وغیرہ سبھی آجاتے ہیں ۔
گویائی کی نعمت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ سنجیدگی اور وقار کا التزام کیا جائے، بات کرتے وقت اسلوب وانداز متانت اور دھیما پن لئے ہوئے ہو، بیجا شدت وسختی مخاطب کو بدگمان کرنے کے ساتھ ہی انسان کی اپنی سیرت کی تعمیر میں مضر ثابت ہوتی ہے۔
گفتگو کس انداز میں کی جائے؟ کون سے موقعہ پر کیا اسلوب اپنایا جائے؟ یہ ایک مستقل باضابطہ فن ہے، اپنی فطری ذکاوت، مخاطب کی نفسیات وغیرہ کی مدد سے انسان یہ فن بآسانی سیکھ سکتا ہے، مخاطب کبھی تعظیمی انداز سے، کبھی عقلی گفتگو سے، کبھی جذباتی انداز سے، کبھی اختصار اور کبھی تفصیل سے متأثر ہوتا ہے اور اچھا متکلم ان سب کی رعایت رکھتے ہوئے اپنے مقاصد میں بامراد ہوجاتا ہے۔
ایک بچہ اپنے باپ کے پاس آکر بلا تمہید وسلام پیسے کا مطالبہ کرتا ہے، باپ کہتا ہے: میں نے تم کو کل پیسے دیئے تھے اب کیا روزآنہ دوں ؟ منع کردیتا ہے، دوسرا بچہ آتا ہے، سلام کرتا ہے، ادب وتواضع کا مظاہرہ کرتا ہے، پھر کہتا ہے: ابا جان! آپ نے کل پیسے دیئے تھے، وہ خرچ ہوگئے، آج مزید ضرورت ہے، میں بار بار مانگتے ہوئے شرمندہ ہوں ، اب آئندہ