اپنی سستی اور غفلت آڑے آجاتی ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کام میں اپنی کامیابی کو ناممکن سمجھ کر اپنے حوصلے پست کردیتے ہیں اور ہمت ہار جاتے ہیں اورپھر محروم ہوجاتے ہیں ۔
خود اعتمادی کا فقدان بہت بڑا مرض ہے، اسی نے ہم کو کمزور، مردہ دل، پست حوصلہ، جامد اور محروم بنادیا ہے، اور اسی نے ہماری حرکت، استقامت اور بلند نظری وعالی فکری کا خون کرڈالا ہے، ہم میں احساسِ کمتری جڑ پکڑ چکا ہے، اسی لئے سب ہم کو کہتر وادنیٰ سمجھنے لگے ہیں ۔
خود اعتمادی کامیابی کے لئے بنیادی شرط ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کی حدیں کبر وغرور سے نہ ملنے پائیں کیونکہ کبر بھی پستی کا اہم سبب ہے، اس مرحلہ پر بڑی احتیاط، باریک بینی اور دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے، خود اعتمادی کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی پر مکمل قدرت واستطاعت کا یقین آدمی میں پیدا ہوجائے اور وہ اپنی ذات اور اس کے تمام اچھے پہلوؤں سے بخوبی باخبر ہوجائے، جب کہ کبر وغرور کے معنیٰ اپنے کو اصل استحقاق سے زیادہ کے قابل سمجھنا، بغیر عمل کے مطلوبہ نتائج کا مطالبہ کرنا، دوسروں کو پست اور خود کو بالا سمجھنا وغیرہ ہیں ۔
خود اعتمادی کے جوہرِ گراں مایہ سے آراستگی کے بعد انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام مشکلات کا خوشی خوشی مقابلہ کرے، مصائب میں الجھ کر مضطرب اور پریشان ہونے کے بجائے مسکرائے اور: ؎
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا
کا مصداق بن جائے، مصائب کا خندہ روئی سے مقابلہ نجات کی راہیں کھول دیتا ہے، مصائب کے دور ہونے کا اہم سبب بنتا ہے، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مصائب وحالات کا ہنستے مسکراتے مقابلہ کرنے والے کامیابی اور سعادتوں سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں ۔