حنفی نماز مدلل ۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں |
یرِ نظر |
|
(5)ـــجمہور مُحدّثین کے نزدیک یہ حدیث قیامِ رمضان (تَراویح)سے متعلّق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلّق تہجّد کی نمازسے ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اِس حدیث کو اپنی کتابوں میں قیامِ رمضان کے اَبواب میں ذکر کرنے کے بجائے تہجد کے ابواب میں بیان کیا ہے۔شارِحِ بُخاری،محدّثِ کبیر ،حافظ الحدیث علّامہ ابنِ حجر عسقلانی نے بھی اِس حدیث کو تہجد ہی سے متعلّق قرار دیا ہے ۔(فتح الباری:3/21) (6)ـــاگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حدیثِ مذکور میں تَراویح کی آٹھ رکعات کو بیان کیا گیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس واضح اور صریح روایت کے ہوتے ہوئے دورِ فاروقی میں جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم اجمعین نے 8 رکعات تَراویح کی روایت کو ترک کرکے بیس رکعت کو کیوں اختیار کیا ،اور ایسا اِتفاق کہ کسی ایک بھی صحابی کا اُس میں کوئی اختلاف منقول نہیں ،پھر یہی نہیں بلکہ تابعین ، تبعِ تابعین ،فقہاء اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی کو بھی حضرت عائشہ صدیقہکی اس واضح اور صریح روایت پر عمل کرنے کا خیال نہیں آیا ۔۔؟؟ کیا تمام صحابہ و تابعین و تبعِ تابعین اور جمہور فقہاء و محدّثین سب ہی(نعوذ باللہ) حدیثِ صریح کی مُخالفت کرنے والے اور دین کی مَن مانی تشریح کرنے والے تھے۔۔؟؟ جن لوگوں کے ذریعہ دین ہم تک پہنچا کیا وہ خود ہی(العیاذ باللہ) اُس پر عمل پیرا نہیں تھے۔۔؟؟