حنفی نماز مدلل ۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں |
یرِ نظر |
|
علم و عمل کا عظیم مَرکز جسے دنیا ”کوفہ“کے نام سے جانتی ہے ، اور جہاں حضرات صحابہ کرام وتابعین کی ایک بڑی جماعت رہی ہے ،وہاں کے رہنے والوں کا بھی مسلَک ”ترکِ رفعِ یدین “ہی کا تھا ، چنانچہ اِمام ترمذی فرماتے ہیں:”وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ،وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،وَأَهْلِ الكُوفَةِ“ یعنی بےشمار اہلِ علم اور صحابہ کرام اور تابعین اسی کے قائل ہیں اور یہی حضرت سفیان ثوری اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔(یعنی نماز میں صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت رفعِ یدین کیا جائے گا )۔(ترمذی،رقم الحدیث:257) فقہِ حنفی کے سب سے بڑے ناقل حضرت اِمام محمّد اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مؤطاء اِمام محمد“ میں لکھتے ہیں:”فَأمَّا رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَوةِ فَاِنَّهُ يَرْفَعُ الْيَدَيْنِ حَذْوَ الْأُذُنَيْنِ فِي ابْتِدَاءِ الصَّلَوةِ مَرَّةً وَاحِدَةً ثُمَّ لَا يَرْفَعُ فِي شَيْء مِّنَ الصَّلَوةِ بَعْدَ ذٰلِكَ وَهٰذَا كُلُّهُ قَولُ أَبِيْ حَنِيْفَةَ رَحِمَهُ اللهُ“ اور بہرحال نماز میں رفعِ یدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ نماز کی اِبتداء میں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھائے، پھر اس کے بعد نماز میں کسی بھی جگہ ہاتھ نہ اُٹھائے۔ اور یہ سب حضرت اِمام ابوحنیفہ کا قول ہے۔(مؤطا اِمام محمّد:90 ،91،میزان)رفعِ یدین کی روایات قابلِ عمل کیوں نہیں: ائمّہ اربعہ میں دو بڑے اور مشہور اِمام یعنی اِمام اعظم ابوحنیفہاور حضرت اِمام مالک رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے رفعِ یدین کے قائل نہیں،اور اُنہوں نے رفعِ یدین کی روایات کو اِس لئے ترجیح نہیں دی کیونکہ وہ