حنفی نماز مدلل ۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں |
یرِ نظر |
|
﴿بیس رکعت تَراویح﴾ 20 رکعت تراویح اُمّت کا ایک اجماعی اور اِتفاقی مسئلہ ہے ، اِس میں 8 رکعات کا قول اختیار کرناکسی بھی اِمام کا مسلَک نہیں اور نہ ہی صحابہ و تابعین اور فقہاء و مجتہدین میں کبھی اِس کا کوئی قائل رہا ہے ،لہٰذا اس مسئلہ میں 8 رکعات تَراویح کا نظریہ اختیار کرناجمہور صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین ، فقہاء ومحدّثین ،ائمہ اربعہ و مجتہدینِ امّت ، شرق و غرب کے تمام اہلِ علم کے اتفاق اور اِجماع کے سراسر خلاف ہے ، جس کی دلائل کے اعتبار سے کوئی قوّت اور حیثیت نہیں ۔ایک اَدنیٰ عقل و دانش کا حامل شخص بھی اِس حقیقت کو بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ جس مسئلہ پر حضرات صحابہ کرام کا اِجماع ہو، ائمہ اربعہ اُس مسئلہ پر متفق ہوں،اور ہر زمانے کے فقہاء و محدّثین اُس کے قائل رہے ہو ں، اور اس میں کسی کا کبھی کوئی اختلاف نہ رہا ہو ،نیز اُس مسئلہ کو ابتداء ہی سے تَلقّی بالقبول یعنی اُمّت میں عمومی قبولیت کادرجہ حاصل رہا ہو اُس کی مُخالفت کرتے ہوئے اپنی رائے کو دین و شریعت کی حیثیت دینا سوائے ضلالت و گمراہی کے کیا ہوسکتا ہے۔ذیل میں 20 رکعات تراویح کےواضح دلائل ذکر کیے جارہے جس سے روزِ روشن کی طرح اِس مسئلہ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے :تَراویح کے بارے میں نبی کریمﷺکا عَمل: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ۔(طبرانی کبیر:12102)(ابن ابی شیبہ:7692)