حنفی نماز مدلل ۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں |
یرِ نظر |
احادیث متن کے اعتبار سےمضطرب(مختلف) ہونے کی وجہ سےقابلِ اِستدلال نہیں ، چنانچہ رفعِ یدین کی ”أصح مافی الباب “یعنی سب سے زیادہ صحیح روایت جس کو رفعِ یدین کے بارےمیں سب سے مضبوط اور ٹھوس دلیل قرار دیا جاتا ہے،یہاں تک کہ اُسے ”حجۃ اللہ علی الخلق“کادرجہ دیا گیا ہے،وہ حضرت عبد اللہ بن عمرکی ایک روایت ہے ،جسے اِمام بخاری نے نقل کیا ہے،ملاحظہ فرمائیے :”عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرنبی کریمﷺ کی نماز کا یہ طریقہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺنماز کے شروع میں تکبیر کہتے ہوئے ،رکوع میں جاتے ہوئےاور رکوع سے سر اُٹھاکر رفعِ یدین کیا کرتے تھے۔(بخاری:735) لیکن یہ حدیث متن کے اعتبار سےمضطرب(یعنی مختلف)ہے،یعنی اِس کے الفاظ کے اندر بڑی کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے،جس کی وجہ سے یہ حدیث قابلِ اِستدلال نہیں،اور اِس کے اضطراب کی تفصیل یہ ہےکہ حضرت عبد اللہ بن عمرکی روایت میں بکثرت یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ نماز میں رفعِ یدین یعنی ہاتھوں کے اُٹھانے کا عمل کتنی مرتبہ اور کہاں کہاں کیا جائے گا ،چنانچہ : ٭…ایک روایت میں صرف رکوع سے اُٹھ کر رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(مؤطا مالک:210) ٭…ایک روایت میں دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونے کے بعد بھی رفعِ یدین کاذکر ہے۔(بخاری:739) ٭…صرف سجدہ میں جاتے ہوئے بھی رفعِ یدین کا ذکر ہے۔(طبرانی اوسط:16)