علیہ وسلم اس طرح چٹان پر چڑھے ۔پھر حضرت طلحہ کو دعا دی۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ میں سے ہیں جنکے نام لے کر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔آپ رضی اللہ عنہ قریش میں ساتویں نمبرپر ایمان لے آئے تھے۔ غزوہ اُحدمیں ان کی بہت بڑی قربانی تھی۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کفار تیروں کی بارش کر رہے تھے جس کو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ پر روک رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر پچاسی زخم لگے حتیٰ کہ ہاتھ شل ہوگیامگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع نہیں چھوڑا۔
2: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے زرہ استعمال فرمائیہے جو کہ توکل کے ہرگز منافی نہیں ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ توکل کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اسبابِ ظاہر ہ مکمل اختیارکرنے کے بعدنتیجہ مسبب الاسبابیعنی اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا۔واضح رہے کہ اسباب کے چھوڑدینے کا نام توکل نہیں بلکہ تعطل ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تعلیم دینےکے لیے ایسے اعمال فرمائے تھے۔ تیسری وجہ کہ میدانِ جنگ میں حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے دیاہے:
يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ․
(سورۃ النساء:71)
اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حق تعالیٰ کے احکام کی کون تعمیل کرسکتاہے!
3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سات زرہیں تھیں:
(۱) ذات الوشاح، (۲) ذات الحواشی، (۳) ذات الفضول، (۴) فضہ، (۵) سغدیہ یا سعدیہ، (۶) بتراء، (۷) خرنق