میں جو مانگوگے موجود ہے۔
گویا کن فیکون کی طاقت پیدا ہوجائے گی کہ جو چاہا وہی ہوگیا۔ نہ اسباب کی ضرورت، نہ وسائل کی۔ اور جب علمِ انسانی اسباب سے مستغنی ہوجائے گا اور عمل، کسب و ریاضت سے مستغنی ہوکر محض قوّتِ ارادہ کے تابع ہوجائے گا، بہ الفاظِ دیگر حق تعالیٰ کے علم و صفت کے مشابہ ہوجائے گا تو اس وقت انسان کی علمی و عملی خلافت مکمل ہوگی کہ وہ جس کا نائب ہے وہ علم و عمل میں کامل ہے اور اس نائبِ الٰہی کا علم و عمل اس کے علم و عمل کے مشابہ ہوجائے گا اور جب کہ بنائے خلافت بھی علم و عمل ہی تھا جو اب علم و عملِ خداوندی کے مشابہ بن گیا، تو خلافت بھی صحیح معنی میں اسی وقت مستحکم و مضبوط ہوگی۔ مگر جنت میں یہ استحکامِ خلافت جب ہی ہوگا جب دنیا میں علم و عمل کے اسباب و وسائل اختیار کرکے اُسے جزوِ نفس بنانے کی انسان نے سعی کی ہوگی، ورنہ یہاں کی محرومی سے وہاں بھی محرومی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفۂ کامل بن جانے کے بعد حق تعالیٰ ان بندوں کو ان ہی القاب و خطابات سے یاد فرمائیں گے جو القاب و خطاب خود ان کے تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو نشاط میں لانے کے لیے ان کے نام خطوط بھیجیں گے۔ فرشتے خطوط رسانی کا کام کریں گے۔ ان خطوط کے لفافوں پر پتا یہ لکھا ہوگا:
مِنَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ إِلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔
عزیزرحیم کی طرف سے یہ خط عزیز و رحیم کو پہنچے۔
یعنی القاب بھی وہی دے دیں گے جو خود ان کے سرکاری خطابات ہیں۔ بس اسی عالم میں انسان صورتاً خلیفۂ خداوندی ہے اور محض خلافت کے راستے پر پڑتا ہے۔ آخرت میں پہنچ کر حقیقی معنی میں خلیفۂ خداوندی بن جائے گا، مگر یہ منزل جب ہی آئے گی جب اس کا راستہ دنیا میں اختیار کرلیا جائے گا۔ اگر یہاں نیابت کی یہ ظاہری صورت اختیار نہ کی جائے جو طاعت و عبادت سے بنتی ہے تو وہاں تکمیل کس چیز کی ہوجائے گی اور کیسے ہوجائے گی۔ بہرحال یہ واضح ہوگیا کہ جنا۔ّت، ملائکہ اور حیوانات مین سے اس خلافت کے عہدے کے لیے کسی کا انتخاب عمل میں نہ آیا، آیا تو صرف انسان کا آیا ع
قرعۂ فال بہ نامِ من دیوانہ زدند