Deobandi Books

انسانیت کا امتیاز

60 - 74
تک کہ اسی انداز کا نہ ہوگا جس انداز کا خود حق تعالیٰ کا ہے اس وقت تک اس انسان کو علمی و عملی خلافت کی تکمیل نہیں ہوسکتی، اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے علم اور عمل کی شان یہ ہے کہ وہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا علم بھی اسباب سے بے نیاز ہے۔ یہ نہیں کہ حق تعالیٰ نے کوئی کتاب پڑھ کر یہ علم حاصل کرلیا (معاذ اللہ)۔ بلکہ علم کا سرچشمہ خود اس کی ذات ہے۔ یعنی علم خود اس کی ذات بابرکات سے اُبھرتا ہے۔ ایسے ہی اس کی صنا۔ّعی بھی وسائل و آلات کی محتاج نہیں۔ بلکہ جب کسی چیز کے بنانے کا ارادہ کرتے ہیں تو فرمادیتے ہیں: کن (ہوجا) فیکون، تو وہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہ پل بھر میں جہان بنادیتے ہیں اور ان کے ارادے ہی سے وہ چیز خود بہ خود معرضِ وجود میں آجاتی ہے:
{اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُO}1 
بلاشبہ ان کا معاملہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کیا تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے۔ 
اس صورتِ حال کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ کیفیت اس میں جنت میں داخل ہوکر پیدا ہوگی۔ چناں چہ علم تو یہ ہوگا۔ یعنی ماضی و مستقبل سب کچھ انسان پر روشن ہوکر اس کے علم میں آجائے گی۔ اگلے پچھلے تمام کیے ہوئے اعمال اس کے سامنے آجائیں گے اور یہ علوم اسے خودبہ خود حاصل ہوں گے۔ نہ کوئی اُستاد ہوگا نہ کتاب، بلکہ نفسِ انسانی خود ۔ُمدرک بن جائے گا۔ فرمایا گیا:
{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْO}2 
تو اس وقت ہر شخص ان اعمال کو جان لے گا جو لے کر آیا ہے۔ 
اور ہر عمل کی یہ کیفیت ہوگی کہ تمام صنعتیں اس کی قوّتِ متخیّلہ کی تابع ہوجائیں گی۔ کسب و محنت اور اختیارِ اسباب کی ضرورت نہ ہوگی۔ جس چیز کی خواہش ہوگی ارادہ کرتے ہی وہ چیز سامنے آجائے گی۔ اسی کو قرآنِ کریم میں فرمایا گیا:
{وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَO}3
اور تمہارے لیے اس جنت میں جس چیز کو تمہارا جی چاہے گا موجود ہے اور نیز تمہارے لیے اس 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
3 انسانیت کا امتیاز 6 1
4 مقدمہ و تمہید 6 1
5 کائنات کا مقصدِ تخلیق 8 1
6 ذی شعور مخلوقات 8 1
7 اسلام میں حیوانات کے حقوق کی حفاظت 9 1
8 جنات کے حقوق 11 1
9 جنات میں مختلف مذاہب 12 1
10 فقہا کی بحث 14 1
11 جنات میں آں حضرتﷺ کی تبلیغ 14 1
12 حقوقِ ملائکہ 15 1
13 انسان کے حقوق 16 1
14 حیوانات کا مقصدِ تخلیق 17 1
15 حیوانات کو عقل وخطاب سے محروم رکھنے کی حکمت 18 1
16 ملائکہ سے نوعیتِ خطاب 19 1
17 جنات سے نوعیتِ خطاب 20 1
18 جنات میں نبوّت نہ رکھنے کی وجہ 21 1
19 انسان کو مستقلاً خطاب 21 1
21 اور کسی بشر کی حالتِ موجودہ میں یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر تین طریق سے 21 1
22 علم اور وحیٔ الٰہی کے لیے انسان کا انتخاب 22 1
23 انسان کا ممتاز علم 23 1
24 ایک چشم دید مثال 25 1
25 فنِ سیاست بھی حیوانات میں پایا جاتا ہے 26 1
26 بطخوں میں سیاست وتنظیم 28 1
27 مکڑی کی صنعت کاری 29 1
28 طبعی علوم انسان کے لیے وجہ امتیاز نہیں ہیں 31 1
29 انسان کا امتیاز 31 1
30 علمِ شریعت کی حقیقت 32 1
31 دیگر مخلوقات پر انسان کی برتری 32 1
32 طبعی تقاضوں کی مخالفت کمال ہے 34 1
33 حجۃ الاسلام سیّدنا الامام حضرت نانوتوی ؒ کا بصیرت افروز واقعہ 34 1
34 حضرت نانوتوی ؒ کا عروجِ روحانی 37 1
35 انسان کی عبادت فرشتوں کی عبادت سے افضل ہے 39 1
36 انسان کی عبادت میں مزاحمتِ نفس ہے 40 1
37 انسان کی کائنات سے بازی لے جانے کا سبب 41 1
38 علمی ترقی صرف انسانی خاصہ ہے 42 1
39 آں حضرتﷺ پر علم اور خلافت کی تکمیل 43 1
40 مادّی ترقی کی اصل حقیقت تصادم و ٹکراؤ کا نتیجہ ہے 44 1
41 علم وجہل اور حق و باطل کے تصادم کی حکمت 46 1
42 قوموں کے مقابلوں میں درسِ عبرت 46 1
43 عقل کو ربانی علوم کا تابع ہونا چاہیے 50 1
44 اسلام کے دینِ فطرت ہونے کے معنی 51 1
45 خلافتِ انسانی کے بارے میں ملائکہ کا سوال 56 1
47 بارگاہِ الٰہی سے قولی و عملی جواب 57 1
48 انسانی اعمال پر فرشتوں کی گواہی کی حکمت 58 1
49 تکمیلِ خلافت کا مقام 59 1
50 مجددین علمائے ربانی انبیا کے نائب ہیں 62 1
51 دین کی حفاظت کا سامان 63 1
52 مادّہ و سائنس کی بے مائیگی 64 1
53 علمِ الٰہی کی مثال 65 1
54 مدارسِ دینیہ انسانیت کی فیکٹریاں ہیں 67 1
55 مدارسِ دینیہ سیرت سنوارنے کے لیے ہیں 69 1
56 خاتمہ 70 1
Flag Counter