تک کہ اسی انداز کا نہ ہوگا جس انداز کا خود حق تعالیٰ کا ہے اس وقت تک اس انسان کو علمی و عملی خلافت کی تکمیل نہیں ہوسکتی، اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے علم اور عمل کی شان یہ ہے کہ وہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا علم بھی اسباب سے بے نیاز ہے۔ یہ نہیں کہ حق تعالیٰ نے کوئی کتاب پڑھ کر یہ علم حاصل کرلیا (معاذ اللہ)۔ بلکہ علم کا سرچشمہ خود اس کی ذات ہے۔ یعنی علم خود اس کی ذات بابرکات سے اُبھرتا ہے۔ ایسے ہی اس کی صنا۔ّعی بھی وسائل و آلات کی محتاج نہیں۔ بلکہ جب کسی چیز کے بنانے کا ارادہ کرتے ہیں تو فرمادیتے ہیں: کن (ہوجا) فیکون، تو وہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہ پل بھر میں جہان بنادیتے ہیں اور ان کے ارادے ہی سے وہ چیز خود بہ خود معرضِ وجود میں آجاتی ہے:
{اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُO}1
بلاشبہ ان کا معاملہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کیا تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے۔
اس صورتِ حال کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ کیفیت اس میں جنت میں داخل ہوکر پیدا ہوگی۔ چناں چہ علم تو یہ ہوگا۔ یعنی ماضی و مستقبل سب کچھ انسان پر روشن ہوکر اس کے علم میں آجائے گی۔ اگلے پچھلے تمام کیے ہوئے اعمال اس کے سامنے آجائیں گے اور یہ علوم اسے خودبہ خود حاصل ہوں گے۔ نہ کوئی اُستاد ہوگا نہ کتاب، بلکہ نفسِ انسانی خود ۔ُمدرک بن جائے گا۔ فرمایا گیا:
{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْO}2
تو اس وقت ہر شخص ان اعمال کو جان لے گا جو لے کر آیا ہے۔
اور ہر عمل کی یہ کیفیت ہوگی کہ تمام صنعتیں اس کی قوّتِ متخیّلہ کی تابع ہوجائیں گی۔ کسب و محنت اور اختیارِ اسباب کی ضرورت نہ ہوگی۔ جس چیز کی خواہش ہوگی ارادہ کرتے ہی وہ چیز سامنے آجائے گی۔ اسی کو قرآنِ کریم میں فرمایا گیا:
{وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَO}3
اور تمہارے لیے اس جنت میں جس چیز کو تمہارا جی چاہے گا موجود ہے اور نیز تمہارے لیے اس