کسی کام کا کرنا عجیب نہیں۔ اس لیے انسان کا ایک سجدہ جو خلافِ طبع کو برداشت کرکے ہوتا ہے فرشتے کی ہزار سالہ عبادت سے زیادہ وزنی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دیانات و عبادات میں بھی انسان ہی فرشتے سے افضل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان میں یہ بہیمیت اور شیطنت والی قوّتیں ہی ہیں جن کی بہ دولت تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ فرشتے میں یہ دونوں قوّتیں نہیں۔ اس لیے وہ دو تہائی دین سے الگ تھلگ ہے۔ اب انسان میں قوّتِ عقلی ہے جو فرشتے میں بھی ہے، مگر اس عقل کے کتنے ہی مصرف جس سے عقلی قوّت کی تفصیلات کھلتی ہیں صرف انسان میں ہیں، ملائکہ میں نہیں۔ اس لیے وہ طاعت اور عبادت میں بھی وہ انواع پیش نہیں کرسکتا جو انسان پیش کرسکتا ہے۔ غرض عبادت کے سینکڑوں دروازے ہیں جو فرشتوں پر بند ہیں اور انسان پر کھلے ہوئے ہیں۔ اسلام کے معنی زندگی کے تمام شعبوں کو قانونِ الٰہی کے ماتحت گزارنا ہے۔ سو جو جامع زندگی انسان کو ملی ہے وہ کسی کو بھی نہیں ملی۔ اس لیے تمام اور تسلیم و رضا اس کی زندگی میں ممکن ہوسکتا ہے، کسی دوسری نوع کے لیے ممکن نہیں۔ ابراہیم ؑ کو جب حکم ہوا:
{اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْلا}1
اے ابراہیم! مسلم بن جائو۔
تو یہ مطلب نہ تھا کہ معاذ اللہ! کفر سے اسلام میں داخل ہو، بلکہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردو اور گردن جھکا دو، تو عرض کیاکہ
{اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَO}2
میں مسلم بن گیا۔
ارشاد ہوا کہ اعلان کردو کہ
{اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَO لَا شَرِیْکَ لَہٗج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَO}3
میری نماز اور عبادت اور میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم کیا گیا ہے اور میں اوّل مسلمین میں سے ہوں۔
پس اسی سپردگی و تسلیم کو اسلام کہتے ہیں کہ رضائے حق کے لیے جیئے اور ضائے حق ہی کے لیے مرے۔ اسی کی خوش نودی کے لیے صلح کرے۔ اُسی کے لیے لڑے۔ اُسی کے لیے