اور دوسری نوع کو تقویٰ کہتے ہیں جس کے ذریعے گناہ سے بچا جاتا ہے۔ عبادت کی ان دونوں نوعوں کو پیشِ نظر رکھ کر غور کرو تو انسان ملائکہ سے علم ہی میں بڑھا ہوا نہیں ہے بلکہ عبادت میں بھی فائق ہے۔ کیوں کہ تقویٰ کی عبادت ملائکہ میں ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ تقویٰ کہتے ہیں شر۔ّ سے بچنے کو اور بچنا اس چیز سے ہوتا ہے جس کا کرنا ممکن ہو۔ ظاہر ہے کہ ملائکہ میں شر۔ّ کا مادّہ ہی نہیں، وہ شر۔ّ کے افعال کر ہی نہیں سکتے، تو ان سے بچنے کے لیے کہا بھی نہیں جاسکتا اور انسان شر۔ّ کر بھی سکتا ہے اور اس سے بچ بھی سکتا ہے۔ اس لیے شر۔ّ سے اُسے ہی روکا بھی جاسکتاہے اور اس کا رکنا عبادت بھی قرار پاسکتا ہے اور فرشتے میں نہ شر۔ّ کا مادّہ ہے نہ اس کے شر۔ّ سے بالارادہ رکنے کا ہی سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے تقویٰ کی نوع کی عبادت ہی فرشتے کے لیے نہیں بلکہ یہ صرف انسان کے ساتھ مخصوص ہے، تو انسان اس نوعِ عبادت میں ملائکہ سے بڑھ گیا۔ اب جو عبادتیں کرنے کی ہیں ان میں معاشرت، معاملات اورخانگی زندگی کی عبادت بھی فرشتوں کے لیے نہیں، کیوں کہ ان میں نسل کا قصہ ہی نہیں کہ ان کے عزیز و اَقربا پیدا ہوں اور معاملات و لین دین، آشتی و صلح اور صلہ رحمی وغیرہ کی نوبت آئے۔ اس لیے ۔ِبر۔ّ کی دو تہائی حصہ بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص نکلے۔
اب رہے اعتقادات، سو یہ عبادت بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ کیوں کہ اعتقاد کی اصل ایمان ہے اور ایمان کے معنی ایمان بالغیب کے ہیں اور فرشتے کے حق میں وہ چیزیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے، غیب ہی نہیں کہ اسے ایمان کا مکلف قرار دیا جائے اور ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ اس لیے اعتقادات کا حصہ بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص رہا۔
اب اگر رہ جاتا ہے تو دیانات کا باب رہ جاتا ہے۔ یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ۔ سو ان کی ضرورت معاشرت کے لیے ہے۔ فرشتوں میں معاشرت ہی نہیں، کیوں کہ نسل نہیں۔ اس لیے مال کے لین دین کا بھی سوال نہیں ہوسکتا۔ تو یہ عبادت بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص رہی۔ رہا روزہ کے معنی اپنے ارادہ و نیت سے کھانا پینا اور لذ۔ّتِ نساء کو ترک کرنا ہے۔ فرشتے کے لیے نہ بیوی ہے، نہ کھانا پینا، تو وہاں اس عبادت کے کوئی معنی ہی نہیں۔ اس لیے لے دے کر نماز رہ جاتی ہے۔ تومیں عرض کرچکا ہوں کہ یہ فرشتے کی طبعی بات ہے اور طبعی تقاضوں سے