Deobandi Books

انسانیت کا امتیاز

54 - 74
اور دوسری نوع کو تقویٰ کہتے ہیں جس کے ذریعے گناہ سے بچا جاتا ہے۔ عبادت کی ان دونوں نوعوں کو پیشِ نظر رکھ کر غور کرو تو انسان ملائکہ سے علم ہی میں بڑھا ہوا نہیں ہے بلکہ عبادت میں بھی فائق ہے۔ کیوں کہ تقویٰ کی عبادت ملائکہ میں ہے ہی نہیں۔ کیوں کہ تقویٰ کہتے ہیں شر۔ّ سے بچنے کو اور بچنا اس چیز سے ہوتا ہے جس کا کرنا ممکن ہو۔ ظاہر ہے کہ ملائکہ میں شر۔ّ کا مادّہ ہی نہیں، وہ شر۔ّ کے افعال کر ہی نہیں سکتے، تو ان سے بچنے کے لیے کہا بھی نہیں جاسکتا اور انسان شر۔ّ کر بھی سکتا ہے اور اس سے بچ بھی سکتا ہے۔ اس لیے شر۔ّ سے اُسے ہی روکا بھی جاسکتاہے اور اس کا رکنا عبادت بھی قرار پاسکتا ہے اور فرشتے میں نہ شر۔ّ کا مادّہ ہے نہ اس کے شر۔ّ سے بالارادہ رکنے کا ہی سوال پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے تقویٰ کی نوع کی عبادت ہی فرشتے کے لیے نہیں بلکہ یہ صرف انسان کے ساتھ مخصوص ہے، تو انسان اس نوعِ عبادت میں ملائکہ سے بڑھ گیا۔ اب جو عبادتیں کرنے کی ہیں ان میں معاشرت، معاملات اورخانگی زندگی کی عبادت بھی فرشتوں کے لیے نہیں، کیوں کہ ان میں نسل کا قصہ ہی نہیں کہ ان کے عزیز و اَقربا پیدا ہوں اور معاملات و لین دین، آشتی و صلح اور صلہ رحمی وغیرہ کی نوبت آئے۔ اس لیے ۔ِبر۔ّ کی دو تہائی حصہ بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص نکلے۔ 
اب رہے اعتقادات، سو یہ عبادت بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ کیوں کہ اعتقاد کی اصل ایمان ہے اور ایمان کے معنی ایمان بالغیب کے ہیں اور فرشتے کے حق میں وہ چیزیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے، غیب ہی نہیں کہ اسے ایمان کا مکلف قرار دیا جائے اور ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ اس لیے اعتقادات کا حصہ بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص رہا۔ 
اب اگر رہ جاتا ہے تو دیانات کا باب رہ جاتا ہے۔ یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ۔ سو ان کی ضرورت معاشرت کے لیے ہے۔ فرشتوں میں معاشرت ہی نہیں، کیوں کہ نسل نہیں۔ اس لیے مال کے لین دین کا بھی سوال نہیں ہوسکتا۔ تو یہ عبادت بھی انسان ہی کے ساتھ مخصوص رہی۔ رہا روزہ کے معنی اپنے ارادہ و نیت سے کھانا پینا اور لذ۔ّتِ نساء کو ترک کرنا ہے۔ فرشتے کے لیے نہ بیوی ہے، نہ کھانا پینا، تو وہاں اس عبادت کے کوئی معنی ہی نہیں۔ اس لیے لے دے کر نماز رہ جاتی ہے۔ تومیں عرض کرچکا ہوں کہ یہ فرشتے کی طبعی بات ہے اور طبعی تقاضوں سے 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
3 انسانیت کا امتیاز 6 1
4 مقدمہ و تمہید 6 1
5 کائنات کا مقصدِ تخلیق 8 1
6 ذی شعور مخلوقات 8 1
7 اسلام میں حیوانات کے حقوق کی حفاظت 9 1
8 جنات کے حقوق 11 1
9 جنات میں مختلف مذاہب 12 1
10 فقہا کی بحث 14 1
11 جنات میں آں حضرتﷺ کی تبلیغ 14 1
12 حقوقِ ملائکہ 15 1
13 انسان کے حقوق 16 1
14 حیوانات کا مقصدِ تخلیق 17 1
15 حیوانات کو عقل وخطاب سے محروم رکھنے کی حکمت 18 1
16 ملائکہ سے نوعیتِ خطاب 19 1
17 جنات سے نوعیتِ خطاب 20 1
18 جنات میں نبوّت نہ رکھنے کی وجہ 21 1
19 انسان کو مستقلاً خطاب 21 1
21 اور کسی بشر کی حالتِ موجودہ میں یہ شان نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام فرمائے مگر تین طریق سے 21 1
22 علم اور وحیٔ الٰہی کے لیے انسان کا انتخاب 22 1
23 انسان کا ممتاز علم 23 1
24 ایک چشم دید مثال 25 1
25 فنِ سیاست بھی حیوانات میں پایا جاتا ہے 26 1
26 بطخوں میں سیاست وتنظیم 28 1
27 مکڑی کی صنعت کاری 29 1
28 طبعی علوم انسان کے لیے وجہ امتیاز نہیں ہیں 31 1
29 انسان کا امتیاز 31 1
30 علمِ شریعت کی حقیقت 32 1
31 دیگر مخلوقات پر انسان کی برتری 32 1
32 طبعی تقاضوں کی مخالفت کمال ہے 34 1
33 حجۃ الاسلام سیّدنا الامام حضرت نانوتوی ؒ کا بصیرت افروز واقعہ 34 1
34 حضرت نانوتوی ؒ کا عروجِ روحانی 37 1
35 انسان کی عبادت فرشتوں کی عبادت سے افضل ہے 39 1
36 انسان کی عبادت میں مزاحمتِ نفس ہے 40 1
37 انسان کی کائنات سے بازی لے جانے کا سبب 41 1
38 علمی ترقی صرف انسانی خاصہ ہے 42 1
39 آں حضرتﷺ پر علم اور خلافت کی تکمیل 43 1
40 مادّی ترقی کی اصل حقیقت تصادم و ٹکراؤ کا نتیجہ ہے 44 1
41 علم وجہل اور حق و باطل کے تصادم کی حکمت 46 1
42 قوموں کے مقابلوں میں درسِ عبرت 46 1
43 عقل کو ربانی علوم کا تابع ہونا چاہیے 50 1
44 اسلام کے دینِ فطرت ہونے کے معنی 51 1
45 خلافتِ انسانی کے بارے میں ملائکہ کا سوال 56 1
47 بارگاہِ الٰہی سے قولی و عملی جواب 57 1
48 انسانی اعمال پر فرشتوں کی گواہی کی حکمت 58 1
49 تکمیلِ خلافت کا مقام 59 1
50 مجددین علمائے ربانی انبیا کے نائب ہیں 62 1
51 دین کی حفاظت کا سامان 63 1
52 مادّہ و سائنس کی بے مائیگی 64 1
53 علمِ الٰہی کی مثال 65 1
54 مدارسِ دینیہ انسانیت کی فیکٹریاں ہیں 67 1
55 مدارسِ دینیہ سیرت سنوارنے کے لیے ہیں 69 1
56 خاتمہ 70 1
Flag Counter