وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔ کوئی رُخ تبدیل نہیں کیا۔ نہ اُس کا رُخ بدلا نہ ہی دھارا تبدیل ہوا۔ اسی طرح ہوا جیسے پہلے چل رہی تھی اب بھی اسی انداز سے چل رہی ہے۔ زمین جیسے پہلے ایک تودۂ خاک تھی، اب بھی ہے ۔نہ اس میں کوئی جد۔ّت ہے نہ ندرت ہے، نہ ترقی اور نہ ارتقا ہے۔
لیکن اگر ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے ملا کر ٹکرا دو تو وہیں ترقی شروع ہوجائے گی۔ مثلاً: پانی کو ایک برتن میں بھر کر اور بیچ میں ایک پردہ دے کر دوسری جانب آگ دہکا دیں کہ جس سے آگ پانی پر حملہ آور ہو اور پانی آگ پر، یعنی وہ اِسے ٹھنڈا کردینا چاہے اور یہ اُسے گرما دینا چاہے، تو ان دونوں کے ٹکراؤ سے ایک تیسری چیز پیدا ہوجائے گی جسے بھاپ یا اسٹیم کہتے ہیں اور اس سے ۔ِکلیں اور مشینیں چلنے لگیں گی اور تمد۔ّنی ترقی شروع ہوجائے گی۔
اگر آگ کو پانی سے ٹکر نہ دی جاتی تو محض آگ یا محض پانی سے کوئی انجن یا مشین نہ چل سکتی۔ تو یہ تمد۔ّنی ترقی دو عنصروں کے تصادم اور ٹکراؤ کا نتیجہ ہے جو تنہا تنہا ایک ایک عنصر سے کبھی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی طرح اگر ہوا کو آگ سے ٹکرا دیا جائے اور فضا میں مثلاً آفتاب کی گرمی سے برسنے والی آگ ہوا کے جھکولوں سے متصادم ہوتی ہے تو شہابِ ثاقب اور گر جنے والے رعد و برق پیدا ہوتے ہیں جن سے فضا میں عجائبات نمایاں ہوتے ہیں اور ساکن فضا میں نئے نئے حوادث رونما ہوتے ہیں جو محض آگ یا محض ہوا سے نمایاں نہیں ہوسکتے تھے۔
اسی طرح مثلاً مٹی اور پانی کو ملا دیا جائے کہ مٹی تو پانی کے سیلان اور ر۔ّقت کو ختم کردینا چاہے اور پانی مٹی کے جماؤ کو اور انجماد کو مٹا دینا چاہے، تو ان دونوں کی ٹکر سے گارا پیدا ہوجائے گا اور اس سے اینٹیں بننے لگیں گی جن سے مکانات کی تعمیر ممکن ہوگی۔ پھر اس گارے سے برتن بننے لگیں گے جن سے تمد۔ّن کی ترقی ہوگی اور نئے نئے ڈیزائن کے ظروف و مکان اور سامان کے تیار ہوجائیں گے۔ اگر تنہا مٹی اور پانی اپنی اپنی جگہ پڑے رہیں تو یہ ترقی کبھی بھی رونما نہ ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ ترقی نام تصادم کا ہے، تصادم نہ ہو تو ترقی بھی نہ ہو۔
ان بے شعور چیزوں کو چھوڑ کر باشعور کو لو تو دو پہلوان مثلاً فنِ ۔ُکشتی و سپہ گری کے ماہر ہوں، لیکن کبھی زور آزمائی نہ کریں اور کبھی باہم ۔ُکشتی نہ لڑیں تو اُن کے فن اور داؤ پیچ میں کوئی اضافہ نہ ہوگا، لیکن اگر ان دونوں پہلوانوں کو باہم ٹکرا دیا جائے اور وہ ۔ُکشتی لڑپڑیں تو ہر ایک