بناتی ہے۔ آپ کا کپڑا پھٹ جائے گا مگر اس کا بنا ہوا خیمے کا یہ کپڑا اور خیمہ نہیں پھٹے گا۔ آپ کا بنایا ہوا کپڑا میلا ہوجائے گا جسے آپ پانی سے دھوئیں گے۔ صابن سے صاف کریں گے، مگر مکڑی کے اس خیمے کے کپڑے کو صاف کرنے اور دھونے کی ضرورت ہی نہیں۔
آپ کہیں گے کہ ہم اپنی غذا کے لیے پرندے پھانسنے کے لیے جال بناتے ہیں، مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال ۔ُبنتے ہیں، تو ہماری تدبیر کو کون پہنچ سکتا ہے کہ ہم غیر نوع کو قابومیں لانے کے لیے ۔ُسوت کے تاگوں سے کام لے لیتے ہیں۔ تو بھی مکڑی آگے بڑھ کر کہے گی کہ میں اس سے بہتر جال تن سکتی ہوں۔ وہ جالا تانتی ہے تو اس میں مکھیاں پھنس جاتی ہیں، چلا۔ّتی ہیں مگر اس جال سے نہیں نکل سکتیں۔ تو کیا یہ غیر نوع کا قابو میں لانا نہیں۔ اور پھر اتنا باریک تار بناتی ہے کہ آپ کا ۔ُسوت اتنا باریک نہیں ہوتا۔
غرض آپ فنونِ طبیعہ میں سے کون سے فن کو اپنی خصوصیت کہہ سکیں گے۔ ضروریاتِ زندگی کا کوئی ایسا فن نہیں جو حیوانات میں نہ ہو۔ ہم جس قدر بھی ضروریاتِ زندگی سے متعلق علم رکھتے ہیں۔ حیوانات بھی اپنی ضروریاتِ زندگی سے متعلق سمجھ بوجھ اور صنعت کا ری کا علم رکھتے ہیں۔
حتیٰ کہ اگر آپ سائنس کی مدد سے ۵۰ ہزار فٹ کی بلندی پر پر واز کرسکتے ہیں تو ایک کوّا اور کرگس بھی اپنی اندرونی سائنس کی قوّت سے اپنے پروں سے اتنی ہی بلندی پر پرواز کرتا ہے۔ آپ پیتل، تانبے اور دیگر معدنیات کے بنائے ہوئے مصنوعی پروں یعنی ہوائی جہازوں کے ذریعے اُڑتے ہیں اور چیل کوّے وغیرہ پرندے اپنے بنے بنائے پروں اور خلقی طاقت سے اُڑتے ہیں۔ آپ ان مصنوعی پروں میں معدنیات کے محتاج ہیں اور ہوائی جہاز بنانے میں خون پسنہ ایک کرتے ہیں تب کہیں اُڑتے ہیں اور یہ پر ندے خود ہوائی جہاز ہیں۔ غرض آپ اگر اُڑگئے تو پرندے بھی اُڑتے ہیں۔ یعنی پرواز کا جو فعل آپ نے کیا وہی پرندوں نے بھی کیا۔ آپ نے کپڑا ۔ُبن کر تن پوشی کی ہے اور بدن کو کپڑوں سے چھپایا، تو ہر پرند چرند بھی اپنی کھال، اپنے پروں سے اپنے تن بدن کو چھپاتا ہے۔ آپ کا لباس مصنوعی ہے، اس کا قدرتی ہے۔ آپ رہنے کے لیے مکان بناتے ہیں، جانور بھی اپنا بھٹ اور گھونسلا بناتے ہیں۔ آپ اپنا