میرے خیال میں یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ میں کہتا ہوں کہ فنِ سیاست بھی انسانی خاصہ نہیں، بلکہ حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ شہد کی مکھی بھی ملت کی سیاسی اور انتظامی تنظیم کرسکتی ہے۔ شہد کی مکھیاں جب شہد کا چھتا۔ّ بناتی ہیں اور بے نظیر انداز میں اس میں ہشت پہلو سوراخ اور خانے بناکر گویا اپنا یہ قلعہ تیار کرلیتی ہیں تو اس کے نظام کی تشکیل اس طرح ہوتی ہے کہ پہلے تو وہ اپنا امیر منتخب کرتی ہیں جس کا نام عربی زبان میں ’’یعسوب‘‘ ہوتا ہے۔ یہ امیرا س چھتے۔ّ پر ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔ ساری مکھیاں اس امیر کی اطاعت کرتی ہیں۔ اندرونِ قلعہ کی انتظامی تقسیم یہ ہوتی ہے کہ اس چھتے۔ّ کے ایک حصے میں تو شہد بھرا جاتا ہے اور ایک حصے میں ان کے بچے ان خانوں میں پلتے ہیں، ایک حصے میں بڑی مکھیاں رہتی ہیں اور امیر ان سب کی نگرانی کرتا ہے، حتیٰ کہ اگر کسی مکھی سے قوم کے خلاف کوئی غداری ہوجائے تو وہ اس مکھی کی گردن قلم کردیتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ چھتے۔ّ کے نیچے ہر طرف کچھ مکھیاں سر کٹی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی پڑی رہتی ہیں۔ کسی کا سر کٹا ہوا اور کسی کی کمر ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی مکھی کسی زہریلے پتے۔ّ پر بیٹھ کر اس کا زہریلا مادّہ چوس کر آتی ہے جس سے بنے ہوئے شہد میں یقینا ۔َ۔ِّسمیت۔َّ کا سرایت کرجانا یقینی ہوتا ہے تو وہ یعسوب اُسے فوراً محسوس کرتا ہے کہ زہریلا مادّہ لے کر آئی ہے اور اس مکھی کی گردن توڑ کر اُسے فوراً مار گراتا ہے کہ وہ اس چھتے۔ّ کے اندر نہ گھسنے پائے، تاکہ اُس کے زہریلے مادّے سے قوم کے دوسرے افراد کی جانیں ضائع نہ ہوں۔ گویا وہ سمجھتا ہے کہ ایک کی جان
لے کر اگر پوری قوم کو بچالیا جائے تو کوئی جرم نہیں۔ یعنی اس کی سیاست اُسے یہ اصول سمجھاتی ہے کہ {وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰٓـاُولِی الْاَلْبَابِ}1 ’’یعنی ایک موت سے اگر پوری قوم کی حیات بچ جائے تواس موت میں کوئی مضایقہ نہیں۔‘‘
اس قتلِ نفس پر مکھیوں کی اطاعت کا یہ عالم ہے کہ نہ کوئی ایجی ٹیشن ہوتا ہے، نہ امیر کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ چپ چاپ خوش دلی سے امیر کے اس فعلِ قتل پر گردن جھکادی جاتی ہے اور کسی کو یہ خلجا ن نہیں گزرتا کہ یہ کیوں ہوا؟ بلکہ تمام قوم سرِ اطاعت جھکا کر مان لیتی