کے ٹھکا نے کو گندہ مت کرو کہ اس کا تمھیں حق نہیں۔
آں حضرتﷺ ایک دن مدینہ سے باہر تشریف لے گئے، ایک دیہاتی کے یہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی دیکھی جو آپ کو دیکھ کر چلائی کہ یا رسول اللہ! یہ دیہاتی مجھے پکڑ لایا ہے اور سامنے پہاڑی میں میرے بچے بھوکے تڑپ رہے ہیں۔ آپﷺ مجھے تھوڑی دیر کے لیے کھول دیجیے کہ میں اُنھیں دودھ پلا آؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: تو وعدہ خلافی تو نہ کرے گی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! سچا وعدہ کرتی ہوں۔ آپﷺ نے اُسے کھول دیا اور وہ وعدے کے مطابق دودھ پلا کر فوراً واپس آگئی۔ آپﷺ نے اُس کے گلے میں وہی رسی ڈال دی اور اُسے بدستور باندھ دیا۔ اور پھر اس دیہاتی کو واقعہ سنا کر سفارش فرمائی کہ اسے کھول کر آزاد کردے۔ چناں چہ اس نے کھول دیا اور وہ اُچھلتی کودتی اور حضورﷺ کو دعائیں دیتی ہوئی پہاڑ میں اپنے بچوں سے جاملی۔
اس واقعے سے واضح ہے کہ حضورﷺ نے سب کے حقوق کی رعایت فرمائی، جانور کی رعایت تو اس کے کھول دینے سے فرمائی، تاکہ ہر نی کی مامتا کی رعایت ہو اور بچوں کو بھوکا مرتے دیکھ کر اس کا دل نہ دکھے۔ بچوں کی رعایت ان کی جان بچا کر فرمائی کہ وہ ضایع نہ ہوں، انسانی حقوق کی رعایت یہ ہوئی کہ ہر نی کو اس کے واپس ہونے پر دوبارہ باندھ دیا، تاکہ واضح ہو کہ ایک انسان کو جنگل سے جانور پکڑ لانے اور اُسے پالنے یا استعمال کرنے کا حق ہے جس میںرخنہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اور ساتھ ہی اس میں وفائے عہد کی بھی تعلیم ہے کہ جب جانوروں تک پر وفائے عہد لازم ہے تو اس عقل مند انسان پر تو کیوں نہ ہوگا اور واضح کردیا گیا کہ جب وفائے عہد کا ثمرہ جانور کے حق میں نجات ہے کہ ہرنی کو آزادی مل گئی تو انسان کے لیے دنیا و آخرت میں نجات کیوں نہ ہوگی۔
فقہائے کرام لکھتے ہیں کہ شہر کے پالتو جانوروں اور کام کاج کے حیوانات کے لیے شہر کے قرب و جوار میں لازمی ہے کہ کچھ زمینیں خالی چھوڑی جائیں جن میں کھیتی باڑی کچھ نہ ہو، تاکہ جانور اس میں آزادی سے چریں او ر گھاس اور پانی استعمال کرسکیں اور اُنھیں ان کا جائز حق ملتا رہے اور ان کی آزادی بھی برقرار رہے۔