وقیل لہ ابعث شاة تذبح فی الحرم۔
خامس ص ٢١٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ صرف دشمن سے حصر ہوتا ہے۔بکری حرم میں ذبح ہو تب احرام کھولے اس کی دلیل یہ آیت ہے فان احصرتم فما استیسر من الھدی ولاتحلقوا رؤوسکم حتی تبلغ الھدی محلہ (آیت ١٩٦ سورة البقرة ٢) اس آیت میں کہا گیا ہے کہ جب تک ہدی اپنی جگہ یعنی حرم میں نہ پہنچ جائے اپنا سر نہ منڈاواؤ۔ ہدی کی جگہ حرم ہے اس کی دلیل یہ آیت ہے ومن قتلہ منکم متعمدا فجزا ء مثل ماقتل من النعم یحکم بہ ذوا عدل منکم ھدیا بالغ الکعبة (الف) (آیت ٩٥ سورة المائدة ٥) اس آیت سے پتہ چلا کہ ہدی کعبہ تک پہنچے اور وہیں ذبح ہو۔ اس لئے احصارکی ہدی بھی حرم میں ذبح ہو تب حلال ہوگا (٢) حدیث میں ہے یحدث ابی میمون بن مھران قال خرجت معتمرا ... فاتیت ابن عباس فسألتہ فقال ابدل الھدی فان رسول اللہ ۖ امر اصحابہ ان یبدلوا الھدی الذی نحروا عام الحدیبیة فی عمرة القضاء (ب) (ابو داؤد شریف ، باب الاحصار ص ٢٦٤ نمبر ١٨٦٤) اس حدیث میں ہے کہ صحابہ نے صلح حدیبیہ میں جو قربانیاں حدیبیہ میں ذبح کی تھی اس کو دو بارہ ذبح کرنے کا حکم دیا۔کیونکہ وہ قربانی ادا نہیں ہوئی۔ اس لئے حنفیہ کے نزدیک احصارکی ہدی حرم ہی میں ذبح کرنا ہوگا (٣)عن ابن مسعود فی الذی لدغ وھو محرم بالعمرة فاحصر فقال عبد اللہ ابعثوا بالھدی واجعلوا بینکم وبینہ یوم امار فاذا ذبح الھدی بمکة حل ھذا قال ابو عبید قال الکسائی الامار العلامة(ج) (سنن للبیھقی ، باب من رای الاحلال بالاحصاربالمرض ج خامس ص ٣٦١، نمبر١٠١٠١) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مکہ جانے والے کو ہدی دیدے اور کسی خاص دن کا وعدہ لے لے اور اس دن حلال ہو جائے۔
فائدہ امام شافعی کے نزدیک یہ ہے کہ جس جگہ محصر ہوا ہے اسی جگہ ہدی ذبح کردے،حرم بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے وقال مالک وغیرہ ینحر ھدیہ ویحلق فی ای موضع کان ولا قضاء علیہ لان النبی ۖ واصحابہ بالحدیبیة نحروا وحلقوا وحلوا من کل شیء قبل الطواف وقبل ان یصل الھدی الی البیت ثم لم یذکر ان النبی ۖ امر احدا ان یقضی شیئا ولا یعودوا لہ والحدیبیة خارج من الحرم (د)(بخاری شریف ، باب من قال لیس علی المحصر بدل ص ٢٤٤ نمبر ١٨١٣) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جہاں احصارہوا ہے وہیں ہدی ذبح کرے گا ۔کیونکہ صحابہ اور حضورۖ نے حدیبیہ میں ہدی ذبح کی اور حدیبیہ حرم میں نہیں
حاشیہ : (الف) اور جو تم میں سے جان کر شکار کو قتل کرے تو اس کا بدلہ اس کے مثل ہے جو قتل کیا جانور میں سے اس کا فیصلہ کرے دو انصاف ور آدمی ہدی جو کعبہ تک پہنچنے والی ہو(ب) ابی میمون بن مہران بیان فرماتے ہیں کہ میں عمرہ کے لئے نکلا ... پس ابن عباس کے پاس آیا اور ان کو پوچھا ،انہوں نے فرمایا ہدی کو بدلو اس لئے کہ حضور ۖ نے اپنے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ہدی بدل دیںجو نحر فرمایا تھا حدیبیہ کے سال عمرة القضا میں ۔یعنی دو بارہ ہدی ذبح کیا(ج) عبد الرحمن بن یزید نے فرمایا ہمارے ساتھ ایک آدمی نے عمرہ کا احرام باندھا ۔پس اس کو بچھو نے کاٹ لیا۔ پس کچھ سوار ظاہر ہوئے ان میں عبد اللہ بن مسعود تھے ان سے لوگوں نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا ۔ہدی بھیجو اور تمہارے اور ان کے درمیان ایک دن متعین کرلو۔ پس جب وہ دن گزر جائے تو حلال ہو جائے(د) امام مالک اور ان کے علاوہ نے فرمایا ہدی نحر کرے اور جس جگہ چاہے حلق کرائے اور اس محصر پر قضا نہیں ہے۔کیونکہ حضورۖ اور ان کے اصحاب نے حدیبیہ میں نحر کیا اور ہر چیز سے حلال ہوئے طواف سے پہلے۔اور بیت اللہ تک ہدی پہنچنے سے پہلے۔پھر کسی نے ذکر نہیں کیا کہ حضور نے کسی کو کچھ قضا کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ اس کی قضا کے لئے واپس ہوئے ہوں۔ اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے۔