الطائفة الی وجہ العدو وجائت تلک الطائفة فیصلی بھم الامام رکعة و سجدتین و تشھد وسلم ولم یسلموا وذھبوا الی وجہ العدوو جائت الطائفة الاولی فصلوا وحدانا رکعة وسجدتین بغیر قراء ة و تشھد وا وسلموا ومضوا الی وجہ العدو وجائت الطائفة الاخری
گی اور چلی جائے گی دشمن کے مقابلہ پر۔اور دوسری جماعت آئے اور وہ ایک رکعت اور دو سجدے نماز پڑھیں قرأت کے ساتھ (اس لئے کہ یہ مسبوق ہیں اور مسبوق اپنی نماز پوری کرتے وقت قرأت کریںگے) اور تشہد پڑھیں اور سلام پھیر دیں۔پس اگر امام مقیم ہو تو پہلی جماعت کو دو رکعت نماز پڑھائے گا اور دوسری جماعت کو دو رکعت۔
وجہ صلوة خوف کا جواز اس حدیث سے بھی ہوتا ہے۔ان عبد اللہ بن عمر قال غزوت مع رسول اللہ ۖ قبل نجد فوازینا العدو فصاففنا لھم فقام رسول اللہ یصلی لنا فقامت طائفة معہ و اقبلت طائفة علی العدو وفرکع رسول اللہ ۖ بمن معہ و سجد سجدتین ثم انصرفوا مکان الطائفة التی لم تصل فجاء وا فرکع رسول اللہ بھم رکعة و سجد سجدتین ثم سلم فقام کل واحد منھم فرکع لنفسہ رکعة وسجد سجدتین (الف) (بخاری شریف ، ابواب صلوة الخوف ص ١٢٨ نمبر ٩٤٢ ابو داؤد شریف، باب من قال یصلی بکل طائفة رکعة ثم یسلم ص ١٨٤ ، ابواب صلوة الخوف نمبر ١٢٤٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز خوف میں دو جماعتیں بنائے گا اور امام ہر جماعت کو ایک ایک رکعت پڑھائے گا۔اور باقی ایک رکعت خود اپنے اپنے طور پر پڑھیںگے۔
نماز خوف پڑھنے کا جو طریقہ اوپر ذکر ہوا یہ حنفیہ کے یہاں مستحب ہے۔اگر اس کے خلاف اور طریقے جو حدیث میں منقو ل ہیں ان کے مطابق نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی۔اس طریقہ کے اختیار کرنے کی وجہ یہ ہیں (١) امام ابو حنیفہ کی نظر آیت کے اس جملہ کی طرف گئی ہے فاذا سجدوا فیلیکونوا من ورائکم ولتأت طائفة اخری لم یصلوا(ب) (آیت ١٠٢ سورة النساء ٤) اس آیت میں ہے کہ پہلی جماعت ایک رکعت کا سجدہ کرلے تو اس کو پیچھے چلے جانا چاہئے جس میں اشارہ ہے کہ دوسری رکعت اس کو فورا نہیں پڑھنی چاہئے وہ بعد میں پوری کرے گی (٢) قاعدہ کے اعتبار سے حنفیہ کی بتائی ہوئی صورت میں پہلی جماعت نماز سے پہلے فارغ ہوگی اور دوسری جماعت بعد میں فارغ ہوگی اور قاعدہ کا تقاضا بھی یہی ہے(٣)اس صورت میں امام کو مقتدیوں کا انتظار کرنا پڑتانہیں ہے اور اگر پہلی جماعت دوسری رکعت فورا پوری کرے تو امام کو اتنی دیر تک دوسری جماعت کے آنے کا انتظار کرنا ہوگا۔اور یہ امامت کے عہدے کے خلاف ہے۔ اس لئے پہلی جماعت
حاشیہ : (الف) عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضور کے ساتھ غزوہ کیا نجد کی جانب تو ہم نے دشمن کا سامنا کیا تو ان کے لئے صف بنائی تو حضور کھڑے ہو کر ہمیں نماز پڑھانے لگے تو ایک جماعت ان کے ساتھ کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے ہوئی تو حضورۖ نے ایک رکعت اور دو سجدے ان لوگوں کو پڑھائے جو ان کے ساتھ تھے۔پھر وہ لوگ پھر کر اس جماعت کی جگہ پر گئے جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی۔پھر وہ لوگ آئے اور حضورۖ نے ان کو ایک رکعت اور دو سجدے پڑھائے۔پھر حضورۖ نے سلام پھیرا پھر ان میں سے ہر ایک کھڑے ہوئے اور اپنی اپنی ایک رکعت اور دو سجدے پورے کئے(ب) پس جب کہ پہلی جماعت سجدہ کرلے تو ان کو پیچھے ہو جانا چاہئے اور دوسری جماعت آئے جس نے نماز نہیں پڑھی۔