یدر اصلی ثلثا ام اربعا وذلک اول ما عرض لہ استأنف الصلوة ]٣٠٨[(١٢) فان کان یعرض لہ کثیرا بنی علی غالب ظنہ ان کان لہ ظن وان لم یکن لہ ظن بنی علی الیقین۔
باب من قال اذا شک فلم یدر کم صلی اعاد، ج اول، ص ٣٨٥، نمبر ٤٤٢٢) اس اثر کو ہم اس پر حمل کرتے ہیں کہ پہلی مرتبہ شک ہوا ہو تو شروع سے نماز پڑھے،اور بار بار شک ہوتا ہو تو ظن غالب پر عمل کرے اور یقین پر عمل کرے ۔
لغت استأنف : شروع سے پڑھے۔
]٣٠٨[(١٢) اور اگر اس کو بار بار شک پیش آتا ہو تو غالب گمان پر بنا کرے گا۔
تشریح مثلا تین رکعت اور چار رکعت میں شک ہو اور غالب گمان ہو کہ چار رکعت پڑھی ہے تو غالب گمان چار رکعت پر عمل کرے گا اور سلام پھیر دے گا۔اور کسی طرف ظن غالب نہ ہو تو تین رکعت یقینی ہے اس لئے تین کو بنیاد بنا کر ایک رکعت ملائے گا۔تاکہ چار رکعت ہو جائے۔اور سجدۂ سہو بھی کرے گا ۔
وجہ حدیث میں اس کا ثبوت ہے عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ ۖ اذا شک احدکم فی صلوتہ فلم یدر کم صلی؟ ثلاثا ام اربعا؟ فلیطرح الشک ولیبن علی ما استیقن ثم یسجد سجدتین قبل ان یسلم (الف) (مسلم شریف ، باب السہو فی الصلوة والسجود ص ٢١١ نمبر ٥٧١ ابو داؤد شریف ، باب اذا شک فی الثنتین والثلاث ص ١٥٤ نمبر ١٠٢٤ بمعناہ ترمذی شریف ، باب فیمن یشک فی الزیادة والنقصان ص ٩١ نمبر ٣٩٨)اس حدیث میں ہے کہ ظن غالب نہ ہو بلکہ دونوں طرف شک ہو تو یقین پر بنا کرے، دوسری حدیث میں ہے کہ ظن غالب پر عمل کر سکتا ہے قال عبد اللہ صلی رسول اللہ ... واذا شک احدکم فی صلوتہ فلیتحر الصواب فلیتم علیہ ثم یسجد سجدتین ۔دوسری حدیث میں ہے فلینظر احری ذلک للصواب (ب) (مسلم شریف ،باب من شک فی صلوتہ فلم یدرکم صلی فلیطرح الشک الخ ص ٢١١ نمبر ٥٧٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غور کرنا چاہئے کہ کتنی رکعت پڑھی ہے تاکہ جس طرف ظن غالب ہو اس پر عمل کیا جاسکے ۔
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی ایک کو نماز میں شک ہو اور نہیں جانتا ہو کہ تین پڑھی ہے یا چار رکعت تو شک کو چھوڑ دے اور یقین پر بنا کرے پھر سجدے کرے دو سجدے اس سے پہلے کہ سلام کرے (ب) عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ حضور نے نماز پڑھی ... اور فرمایا اگر تم میں سے کسی ایک کو اپنی نماز میں شک ہو تو صحیح کی تحری کرنی چاہئے اور اس پر نماز پوری کرنی چاہئے پھر دو سجدے کرے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ درستگی کے قریب کون سی بات ہے۔