یتشھد ویسلم ]٢٩٨[(٢) ویلزمہ سجود السھو اذا زاد فی صلوتہ فعلا من جنسھا لیس
ثم قام فلم یجلس فقام الناس معہ فلما قضی صلوتہ وانتظر نا التسلیم کبر فسجد سجدتین وھو جالس قبل التسلیم ثم سلم صلی اللہ علیہ وسلم (الف) (ابو داؤد شریف ، باب من قام من ثنتین ولم یتشہد ص ١٥٥ نمبر ١٠٣٤ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الامام ینھض فی الرکعتین ناسیا، ص ٨٣، نمبر ٣٦٤ نسائی شریف ،باب ما یفعل من قام من اثنتین ناسیا ولم یتشھد ص ١٣٧ نمبر ١٢٢٣) اس حدیث میں کمی ہونے پر سجدہ کیا،قعدۂ اولی نہ کرنے اور تشہد نہ پڑھنے پر سجدہ کیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ قعدۂ اولے اور تشہد کا پڑھنا واجب ہے تو واجب کے چھوڑنے پر سجدۂ سہو کیا۔ دو سلاموں کے درمیان دو بارہ تشہد پڑھے اس کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن عمران بن حصین ان النبی ۖ صلی بھم فسھا فسجد سجدتین ثم تشھد ثم سلم (ب) (ابو داؤد شریف ، باب سجدتی السہو فیھما تشھد وتسلیم ص ١٥٦ نمبر ١٠٣٩ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی التشہد فی سجدتی السہو ص ٩٠ نمبر ٣٩٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دونوں سلاموں کے درمیان تشہد دو بارہ پڑھے گا۔اور تشہد پڑھے گا تو اخیر میں درود شریف اور دعا بھی پڑھے۔پہلا سلام نماز پوری ہونے کے لئے ہے اور دوسرا سلام اس لئے ہے کہ سجدۂ سہو نماز کے اندر ہو جائے تاکہ سجدۂ سہو کے اندر کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کو سجدہ کے ذریعہ پوری کی جا سکے۔
فائدہ امام شافعی کے نزدیک سلام سے پہلے سجدۂ سہو کرے گا۔ ان کی دلیل اوپر والی ابو داؤد کی حدیث ہے جس میںہے ۔فسجد سجدتین وھو جالس قبل التسلیم ثم سلم (ابو داؤد شریف ، باب من قام من ثنتین ولم یتشھد ص ١٥٥ نمبر ١٠٣٤ ) اور امام مالک فرماتے ہیں کہ نماز میں کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے سجدۂ سہو کریگا اور زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدۂ سہو کرے گا۔انہوں نے دیکھا کہ سلام سے پہلے اور سلام کے بعد دونوں طرح سجدۂ سہو ثابت ہے اس لئے انہوں نے یہ مسلک اختیار کیا۔
]٢٩٨[(٢)مصلی کو سجدۂ سہو لازم ہوگا اگر زیادہ کردے نماز میں ایسا فعل جو نماز کی جنس سے ہو لیکن نماز میں سے نہ ہو یا کوئی فعل مسنون چھوڑ دے تشریح مثلا رکوع یا سجدہ نماز کے فعل میں سے ہیں لیکن ایک ہی رکعت میں دو مرتبہ رکوع کردے یا تین مرتبہ سجدہ کردے تو دوسری مرتبہ کا رکوع یا تیسرا سجدہ نماز میں سے نہیں ہے اگر چہ نماز کی جنس سے ہیں۔ اس لئے سجدۂ سہو لازم ہوگا۔اور فعل مسنون سے مراد فعل واجب ہے جو سنت نبوی سے ثابت ہے۔کیونکہ سنت کو چھوڑ دیا تو نماز پوری ہو جائے گی اس کے لئے سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔
وجہ حدیث میں ہے عن عبد اللہ قال صلینا مع رسول اللہ ۖ فاما زاد او نقص قال ابراھیم وایم اللہ ما جاء ذاک الا من قبلی قال قلنا یا رسول اللہ ۖ احدث فی الصلوة شیئ؟ فقال لا قال فقلنا لہ الذی صنع فقال اذا زاد الرجل او نقص فلیسجد سجدتین قال ثم سجد سجدتین (ج) (مسلم شریف ، باب من ترک الرکعتین او نحوھما فلیتم ما بقی و یسجد سجدتین بعد
حاشیہ : (الف)فرمایا آپۖ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر کھڑے ہوئے اور نہیں بیٹھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پس جب آپۖ نے نماز پوری کی اور ہم نے سلام کا انتظار کیا تو آپۖ نے تکبیر کہی اور دو سجدے کئے اس حال میں کہ آپۖ بیٹھے ہوئے تھیسلام سے پہلے۔پھر آپ نے سلام پھیرا(ب) آپۖ نے لوگوں کو نماز پڑھائی پس آپۖ بھول گئے پس آپۖ نے دو سجدے کئے پھر تشھد پڑھی پھر سلام کیا(ج)آپۖ نے فرمایا نماز میں زیادتی ہو جائے یا کمی ہو جائے،ابراہیم راوی نے کہا کہ خدا کی قسم یہ وہم میری جانب سے ہے، راوی نے فرمایا ہم نے کہا یا رسول اللہ نماز میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہے ؟ آپۖ نے فرمایانہیں (باقی اگلے صفحہ پر)