فلسفی مسئلہ پر مبنی ہے ۔وہ راز یہ ہے کہ سحر وعملیات وغیرہ کی تاثیر کا مدار توجہ اور قوت خیال پر ہے ۔الفاظ اور کلمات کا اس میں زیادہ دخل نہین ۔مگر چونکہ بدون قیود کے خیال میں یکسوئی نہیں پیدا ہوتی اس لیے کچھ کلمات والفاظ اس کے لیے مقرر کر لیے جاتے ہیںاور عامل کے ذہن میںیہ بات جمادی جاتی ہے کہ ان الفاظ ہی میں یہ اثر ہے جس سے اس کا خیال مضبوط ہوجاتا ہے کہ جب میں یہ الفاظ پڑھوں گا فوراً اثر ہوگا چنانچہ اثر ہو جاتا ہے لیکن در اصل وہ خیال کا اثر ہوتا ہے الفاظ کا نہیں ہوتا لیکن یہ اعتقاد مقصود عامل کو مضر ہوتا ہے ۔اگر عامل یہ سمجھنے لگے کہ ان الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ،تو اس کے عمل کا کچھ بھی اثر نہ ہو گا کیونکہ اس اعتقاد کے بعد اس کا خیال کمزور ہوجائے گا کہ نہ معلوم اثر ہوگا یا نہیں ۔اس لیے عامل کے واسطے یہ جہل مرکب ہی مفید ہوتا ہے ۔مگر حقیقت یہی ہے کہ الفاظ میں اثر نہیں بلکہ اس کا مدار توجہ پر ہے ۔
پھر بعضے آدمی تو فطری طور پر متصرف ہوتے ہیں ۔انکو اپنے خیال میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے خاص اہتمام اور زیادہ مشق کی ضرورت نہین ہوتی اور بعضے مشق سے صاحب تصرّف ہو جاتے ہیں ۔
چنانچہ ایک مرتبہ ایک طلسمی انگوٹھی ہندوستان میں بہت شائع ہوئی تھی جس میں غائب اور مردہ آدمیوں کی تصویریں نظر آتی تھیں ۔ اس کا مدار بھی محض خیال پر تھا اسی لیے اس میں یہ شرط تھی کہ اس انگوٹھی کو کوئی عورت یا بچہ دیکھتا رہے تو اس کو صورتیں نظر آویں گی تو اس میں راز یہی تھا کہ تم نے کسی آدمی کا تصور کیا اور اس کا خیال جمایا تمہارے تخیّل کا اثر انگوٹھی دیکھنے والے کے خیال پر پڑا ،اس کو وہی صورتیں نظر آنے لگیں اور اگر تم کسی کا تصور نہ کرو بلکہ یہ خیال جمالو کہ اس کو کوئی صورت نظر نہ آوے ۔تو اس کو ہرگز ایک صورت بھی نظر نہ آوے گی ۔
کانپور میں ایک مولوی صاحب نے کچھ مشق کی تھی جس سے غائب لوگوں کی صورتیں دکھادیا کرتے تھے ۔ان کا قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی آدمی آیا اور اس نے درخواست کی کہ مجھے فلاں شخص کی صورت دکھا دو ، انہوں نے اس سے کہا کہ جاؤ وضو کر کے حجرہ میں جا بیٹھو ۔ادھر انہوں نے گردن جھکا کر توجہ کی ۔تھوڑی دیر میں اسے کچھ بادل وغیر ہ نظر آتے تھے پھر اس شخص کی صورت نظر آجاتی تھی ۔اس کی یہی حقیقت تھی کہ مولوی صاحب توجہ سے دوسرے کے خیال پر اثر دالتے تھے جس کی وجہ سے اس کے متخیلہ میں وہ صورت پیدا ہوجاتی تھی ۔چنانچہ ایک مرتبہ ان مولوی صاحب کی مجلس میں ایک طالب علم بیٹھے تھے ۔ایک شخص آیا اور اس نے درخواست کی کہ مجھ کو فلاں بزرگ کی صورت دکھلا دیجئے وہ حسب معمول ادھر متوجہ ہوگئے ۔اس طالب علم نے چپکے چپکے یہ آیت پڑھنی شروع کی ۔
قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
تو اس شخص کو پہلے پہل کچھ مقدمات تو نظر آنے لگے تھے جب اس طالب علم