ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 56 کی عبارت زمانہ طلب میں وصول کا قصد نہ کرنا چاہئے ارشاد ۔ طالب کو بندہ بن کر رہنا چاہئے کاملیت نیاید الغسال ۔ ثمرات پر نظر کا نہ جانا چاہئے کہ یوں ہو گا ۔ یہی مطلب ہے حضرت استاد علیہ الرحمۃ کے اس قول کا مقصود طلب ہے وصول مطلوب نہیں یعنی طلب کے وقت مقصود طلب ہے ۔ طلب کے وقت وصول پر نظر نہ کرنا چاہئے کہ مجھے وصول ہو گا یا نہیں ۔ بلکہ اس وقت اس کا یہ مذہب ہونا چاہئے ۔ دست از طلب ندارم تا کام من بر آید یا تن رسد بجانا یا جان زتن برآید یا بم اورایانہ یا بم جستجوئے می کنم حاصل آید یا نیماید آر زوئے می کنم بنیم بس کہ داند ماہ رویم کہ من نیز از خریداران اویم ظاہر ہے کہ یہ تھوڑی بات نہیں جب انہیں خبر ہو جائے گی تو وہ اپنے خریدار کو محروم نہ رکھیں گے ۔ عاشق کہ شد کہ یاد بحالش نظر نہ کرد اے خواجہ درد نیست و گرد نہ طبیب ہست مگر تم تفویض بھی اس نیت سے نہ کرو کہ تفویض کی وجہ سے ہمارا کام ہو جائے ۔ بلکہ ان کا حق سمجھ کر تفویض کرو ۔ شیخ کامل کی تعلیم تدریجی ہوتی ہے ارشاد ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے ربانی کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ الربانی الذی یعلم صفار العلومہ قبل کبارھا ۔ ربانی یعنی شیخ کامل وہ ہے جو چھوٹے علوم اول تعلیم کرے ۔ اور بڑے علوم بعد کو سکھلائے یعنی طالب کو بتدریج ترقی کی طرف لیتا جائے ۔ تعلق بالخلق مقصود بالذات نہیں بلکہ بالغیر ہے ارشاد ۔ تعلق بالخلق مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصود بالغیر ہے اور کبھی کبھی جو کسی عوض کی وجہ سے مقصود بالذات پر اس کی تقدیم کا امر ہوا ہے اسی سے بعض اہل علم کو مقصودیت ذاتیہ کا شبہ ہو گیا ہے ۔ حالانکہ کسی عارض کی وجہ سے مقصود بالغیر کبھی مقصود بالذات سے مقدم ہو جاتا ہے مگر وہ مقصود بالذات نہیں بن جاتا ۔ صرف تقدم زمانی ہو جاتا ہے جیسے وضو کا تقدم صلوۃ پر ۔ چنانچہ ارشاد ہے فاذا فرغت فانصب والی ربک فارغب یعنی مخلوق کے کام سے فارغ ہو کر تعلق بالحق میں مشغول ہونے کی کوشش کی جاوے ۔ اور اسی طرح مشغول ہو کہ ماسوا سے قطع نظر کی جائے یعنی توجہ الی الحق اصل و مقصود بالذات ہے ۔