ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 19 کی عبارت واجب ہے کیونکہ نصوص میں اس کی تحصیل کا اثر ہے بخلاف شوق و ذوق کے اس کی تحصیل کا کہیں بھی امر نہیں ۔ جس محبت کی تحصیل مامور بہ ہے وہ عقلی ہے اور محبت عقلی اختیاری ہے ۔ بخلاف محبت طبعی کے کہ وہ غیر اختیاری ہے اس لئے مامور بہ بھی نہیں ہے ۔ طریقہ حصول یقین ( 8 ) ۔ اول بہ تکلف عمل کرنا چاہیے ۔ اس کی برکت سے یقین پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور کوئی طریقہ حصول یقین کا نہیں ۔ عقل و ایمان بڑی دولت ہے ( 9 ) کسی حال کا طاری ہونا اور چندے جاری رہنا یہ بھی بڑی دولت ہے ہمیشہ رہنے کی چیز تو صرف عقل و ایمان ہے ۔ باقی سب میں آمد و رفت رہتی ہے ۔ حصول نسبت کی ترتیب و حقیقت ( 10 ) حصول نسبت کی ترتیب اور حقیقت یہ ہے کہ اول بہ تکلف اعمال ظاہرہ و باطنہ کی اصلاح کرے بالخصوص اعمال باطنہ کی اصلاح زیادہ اہم اور دشوار ہے جب اعمال صالحہ ظاہرہ باطنہ پر ایک معتد بہ مدت تک مواظبت رہتی ہے تو رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایک کیفیت راسخہ پیدا ہو جاتی ہے اس سہولت کے لیے عام مراقبات ۔ ریاضات ۔ مجاہدات اذکار و اشغال مقرر کئے گئے ۔ ہیں باقی اصل چیز اصلاح اعمال ظاہرہ و باطنہ ہی ہے ۔ جس پر نسبت حقیقی مرتب ہوتی ہے جب بندہ اعمال صالحہ ظاہرہ و باطنہ پر مداومت کرتا ہے تو حق تعالی کو صرف اس کے ساتھ رضائے دائمی کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور یہی حقیقت ہے نسبت مع اللہ کی ۔ اور صرف ذکر دائم یا دوام حضور یا ملکہ یاد داشت جس کو کہتے ہیں وہ نسبت کی حقیقت نہیں ۔ البتہ حصول نسبت میں معین بہا ہے ۔ کیونکہ جس کو ہر وقت حق تعالی کا دھیان رہتا ہے ۔ اس سے اللہ تعالی کی نافرمانی ہونا مستعبد ہے ۔ یہ تو نسبت کی حقیقت ہے حق تعالی کو بندہ کے ساتھ ایک خاص تعلق رضا کا ہو جانا جس کا خاصہ ایک خاص انجذاب ہے جس کے لوازم میں سہولت اطاعت اور حضور دائم ہے اور یہ محض موہوب ہے کیونکہ کسی عمل صالح میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ وہ رضائے الہی کے حصول کے لئے کافی ہو گا عادۃ اللہ یہ ہے کہ محض اپنے فضل سے اپنی رضا کو اعمال صالحہ پر مرتب فرما دیتے ہیں ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہ جائے گا بلکہ محض اللہ تعالی کے فضل سے جائے گا ۔ اور یہ نسبت مع اللہ عادۃ پھر کبھی زائل نہیں ہوتی ۔ جیسے