ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 28 کی عبارت فیض قبور مکفل تکمیل سلوک نہیں ارشاد ۔ قبروں سے جو فیض آتا ہے وہ ایسا نہیں جس سے تکمیل ہو سکے یا سلوک طے ہو سکے بلکہ اس کا درجہ صرف اتنا ہے کہ صرف نسبت کی نسبت کو اس سے کسی قدر قوت ہو جاتی ہے ۔ غیر صاحب نسبت کو تو خاک بھی فیض نہیں ہوتا ۔ صرف صاحب نسبت کو اتنا فیض ہوتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے نسبت کو قوت اور حالت میں زیارت ہو جاتی ۔ مگر وہ بھی دیر پا نہیں ہوتی ۔ بلکہ اس کی ایسی مثال ہے جیسے تنور کے پاس بیٹھ کر کچھ دیر کے لئے جسم میں حرارت پیدا ہو جاتی ہے ۔ زندہ مشائخ سے جو فیض ہوتا ہے اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی مقوی دوا کھا کر قوت و حرارت حاصل ہوتی ہے صاحب نسبت کو اول قبر سے فیض لینے کی ضرورت نہیں ۔ زندہ شیخ اس کے لئے قبروں سے زیادہ نافع ہے اور ضرورت بھی ہو تو صاحب نسبت کے لئے قبر کا پختہ ہونا ضروری نہیں وہ تو آثار سے معلوم کر لے گا کہ یہاں کوئی صاحب کمال مدفون ہے ۔ ادب و احترام شیخ کی وجہ ارشاد ۔ مقصد جتنا عظیم ہو گا اس کے وسائل کی بھی اسی قدر وقعت ہو گی ۔ اسی سے شیخ کا ادب و احترام بہت چاہیے ۔ نسبت و ملکہ یاد داشت کا فرق ارشاد ۔ نسبت ملزوم و ملکہ باد داشت لازم ہے دونوں کی ماہئیت الگ الگ ہے ۔ نسبت نام ہے خاص تعلق کا جس جس پر دو امر کا ترتب لازم ہے ایک کثرت ذکر جس کی دوسری تعبیر ملکہ یاد داشت ہے دوسرے دوام طاعت جس طرح کوئی کسی پر عاشق ہو جائے تو اس تعلق عشقی میں دو امر لازم ہے ایک تو یہ کہ معشوق اکثر اوقات ذہن سے نہیں اترتا دوسرے عاشق عمدا اس کی نافرمانی نہیں کرتا ۔ نفع سالک کی تدبیر ارشاد ۔ سالک کو التزام معمولات و قلت مخالطت سے بے حد نفع ہوتا ہے ۔ برکت کا دار مرید کے ارادت و محبت پر ہے نہ کہ بیعت پر سوال ۔ زید کو کسی شیخ سے بے حد عقیدت تھی مگر بیعت یا تعلیم و تلقین کی ہنوز نوبت نہ آئی تھی کہ زید قریب المرگ ہو گیا تھا اور شیخ کو بذریعہ تار بلا بھیجا مگر شیخ کے آںے پر اس کا کام تمام ہو چکا ہے ۔ البتہ زید نے ایک تحریر لکھ دی تھی ۔ شیخ کے نام کہ میں آپ سے مرید ہوں تو گویا وہ شیخ داخل سلسلہ بذریعہ بیعت