ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 51 کی عبارت اور ظاہر ہے کہ اس میں ہر شخص کی حالت جدا ہے تو پھر ایک ترتیب کیسے ہو سکتی ہے اور اصلی بات تو یہ ہے کہ اس کی فکر ہی میں نہ پڑے کہ کتنا راستہ قطع ہو چکا ہے اب کتنا باقی ہے ۔ اس لئے کہ اس طریق کا تو یہ حال ہے ۔ نہ ہرگز قطع گردد جاہ عشق ازد وید نہا کہ می بالد بخود ایں راہ چوں تاک از برید نہا حضرت تمام عمر کی دوڑ دھوپ کے بعد یہ سمجھ میں آئے گا کہ ہم کچھ نہیں سمجھے ۔ نیست کس راز حقیقت آ گہی جملہ می میرند بادشت تہی انکسار و افتقار کا خط حصول مقامات کے حظ سے بڑھ کر ہے حضرت مولانا گنگوہی کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کو ساری عمر کی محنت و کوشش کے بعد یہ معلوم ہو جائے کہ مجھ کو کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس کو سب حاصل ہو گیا ۔ اگر مقامات طے بھی ہو گئے تو ان کے طے ہونے میں وہ حظ نہیں جو اس سمجھنے میں ہے کہ ہم نے بھی کچھ بھی راستہ قطع نہیں کیا ۔ گویا تیلی کے بیل کی طرح ہیں اور یہ حظ ہے انکسار اور افتقار اور عجز و عبدیت کا ۔ بشاشت شیخ شرط تربیت ہے ارشاد ۔ باطن کا علاج اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب کہ معالج کے قلب میں مریض کی طرف سے بشاشت ہو ۔ بلکہ طبیب ظاہری بھی بغیر بشاشت کے علاج نہیں کر سکتا ۔ شیخ موافق سنت کا اتباع کرے ارشاد ۔ جس کے اعمال ظاہرہ و باطنہ منہاج شریعت پر ہوں اس کی صحبت سے استفادہ کرے اصل چیز اعمال ہی ہیں اور حدود و سنت کے اندر رہ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ بعض مرتبہ اتنی لطیف ہوتی ہے کہ خود صاحب کیفیت کو بھی اس کا ادراک نہیں ہوتا ۔ سب کاملین کو اپنے نقص نظر آتے ہیں اور یہی مقتضا ہے عبدیت کا ارشاد ۔ پورا کامل بجز انبیاء کے کوئی نہیں اور وہ کاملین بھی اپنے کو کامل نہیں سمجھتے سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں خواہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ہیں اور مغموم بھی ایسے اگر ہم جیسوں پر وہ غم پڑ جائے تو کسی طرح جانبر نہیں ہو سکتے ۔ کمال کی تو توقع ہی چھوڑنا واجب ہے ہاں سعی کمال کی توقع بلکہ عزم واجب ہے اس کی مثال وہ مریض ہے جس کی تندرستی سے تو مایوسی ہے مگر فکر صحت اور اس کی تدبیر کا ترک جائز نہیں سمجھا جاتا اور نجات بلکہ قرب بھی کمال پر موقف نہیں فکر تعمیل پر موعود ہے ۔