ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 54 کی عبارت مقصود اور طریق کی تشریح ارشاد ۔ کچھ اعمال مامور بہا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی نیز کچھ اعمال منہی عنہا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی ہر دو قسم میں کچھ علمی و عملی غلطیاں ہو جاتی ہیں مشائخ طریق طالب کے حالات سن کر ان عوارض کو سمجھ کر ان کا علاج بتلا دیتے ہیں ۔ ان پر عمل کرنا طالب کا کام ہے ۔ اور اعانت طریق کے لئے کچھ ذکر بھی تجویذ کر دیتے ہیں ۔ تقریر سے مقصود اور طریق دونوں معلوم ہو گئے ۔ صحبت کے نتائج ارشاد ۔ امراض باطنیہ میں تعدبہ ضرور ہوتا ہے ۔ صوفیہ نے اس کو مسارقہ سے تعبیر کیا ہے ۔ صحبت صالحہ کا اثر تو یہ ہے کہ مسارقت کے بعد مشارقت ہوتی ہے کہ دونوں کے انوار سے منور ہو جاتے ہیں اور صحبت بد کا یہ اثر ہوتا ہے کہ مسارقت کے بعد مبارقت ہوتی ہے ۔ کہ دونوں طرف سے بجلی چمکتی ہے اور سوختن و افروختن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ دونوں کا دین جل کا خاک سیاہ ہو جاتا ہے ۔ تعلیم و تعلم کا مقصد اصلی یہی ہے کہ آدمی خدا کا ہو جائے ۔ ارشاد ۔ تعلیم و تعلم کا مقصود یہی ہے کہ آدمی خدا کا ہو جائے ۔ مگر آج کل اہل علم نے صرف تعلیم و تعلم کو ہی مقصود سمجھ لیا ہے عمل کا اہتمام نہیں کرتے محض الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں ۔ ان کو قلب تک نہیں ۔پہنچاتے ۔ غرض علماء کو تحصیل علم کے بعد طریق سلوک یا جذب کو حسب تجویذ شیخ اختیار کر کے اصلاح نفس کرانا چاہئے ۔ ایھا القوم الذین فی المدرسہ کل ما حصلتموہ وسوسہ علم نبود غیر علم عاشقی مابقی تلبیس ابلیس شقی علم رسمی سر بسر قیل است وقال نے از و کیفتے حاصل نہ حال علم چوں بود آںکہ رہ بنمایدت زنگ گمراہی ز دل بزد ایدت این ہوس را از سرت بیروں کند خوف و خشیت در دلت افزوں کند تو ندانی جز یجوز ولا یجوز خود ندانی کہ تو حوری یا عجوز علم چوں بر دل زند یارے سے بود علم چوں برتن زند مارے بود شیخ کو اس حالت کی جذب میں بھی نہ چھوڑے ارشاد ۔ دوش اس مسجد سوئے میخانہ آمد پیر ما