ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 48 کی عبارت عطائی اور طبیب حاذق کا فرق ارشاد ۔ طبیب حاذق کے ہاتھ سے اگر کسی کو شفا نہ ہو اور مر جائے تو اس سے قیامت میں باز پرس نہ ہو گی ۔ کیونکہ وہ فن کو جان کر علاج کرتا ہے بخلاف عطائی کے کہ اس کے ہاتھ سے کسی کو شفا ہو گی جب بھی مواخذہ ہو گا اور کوئی مر گیا تو اچھی طرح گردن ناپی جائے کیونکہ وہ فن سے واقفت نہیں اہل اللہ بے حد شفیق ہوتے ہیں ارشاد ۔ اہل اللہ کو مسلمانوں پر بے حد شفقت اور مصالح کے بے حد رعایت ہوتی ہے ۔ شیخ کے سامنے اس طرح نہ کھڑا ہو کہ اس پر سایہ پڑے ارشاد ۔ شیخ کے سامنے اس طرح نہ کھڑا ہو کہ اس پر سایہ پڑے ۔ بات یہ ہے کہ اس سے بھی الجھن ہوتی ہے پس اس کا منشاء اذیت ہونے کی وجہ سے منع کیا گیا ہے ۔ شیخ کی جائے نماز پر نماز پڑھنا بے ادبی ہے ارشاد ۔ اجازت کے بعد شیخ کی جگہ یا مصلی پر نماز پڑھنے اور ذکر کرنے کا مضائقہ نہیں ۔ بغیر اجازت کے ایسا نہ کرنا چاہیے کیونکہ ظاہرا دعوی مساوات کا ظاہر ہوتا ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جو حضورؐ کی جگہ نماز پڑھتے تھے اس کا منشاء محض اتباع تھا نہ کہ دعوی مساوات ۔ علاوہ اس کے ایک بات اور ہے کہ مبنی ادب کا عرف پر ہے اور تبدل عرفیات سے عرفیات کا حکم بدل جاتا ہے تو صحابہ کے زمانہ میں کسی کی جائے نماز پر نماز پڑھنا خلاف ادب نہ تھا اور اب ہے ۔ ادب کی تحصیل کا طریقہ ارشاد ۔ ادب کا مدار اس پر ہے کہ ایذا نہ ہو اس کلیہ کو تو ملحوظ رکھو یہ مقصود ہے باقی سب اس کے فروع ہیں جو کہ امور انتظامیہ میں سے ہیں اور وہ تبدل زمانہ سے بدلتے رہتے ہیں ۔ جیسے انتظام اوقات کا معیار پہلے گھڑی گھںٹہ پر نہ تھا اور اب گھڑی گھںٹہ پر ہے یا سفر کا مدار پہلے اونٹ ۔ بیل گھوڑے پر تھا ۔ اور اب ریل اور موٹر پر ۔ پس مشائخ میں اپنے ذوق سے کام لینا چاہئے کہ ان کو کس بات سے ایذا ہوتی ہے ۔ کس بات سے نہیں یہ نہ کیا جائے کہ کتابوں سے آداب دیکھ کر عمل کرنے لگے کیونکہ ہر جگہ ہر زمانہ میں امور ایذا بدلتے رہتے ہیں ۔ نیز ادب میں غلو بھی نہ کرے کیونکہ غلو سے بھی ایذا ہوتی ہے ۔