ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 22 کی عبارت طلب مطلوب ہے نہ کہ وصول ارشاد ۔ طلب مطلوب ہے ۔ وصول مطلوب نہیں کیونکہ طلب تو اختیاری ہے اور وصول غیر اختیاری ۔تصوف کا خلاصہ صرف علم مع العمل ہے ارشاد ۔ تصوف کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہی نماز روزہ تصوف ہے اور یہی اعمال مقصود ہیں مجاہدہ کی ضرورت صرف نماز روزہ کو نماز روزہ بنانے کے لئے ہے ۔ تصوف کا خلاصہ صرف علم مع العمل ہے ۔ سالک دو سفر ہیں ایک الی الاحوال دوسرا من الاحوال ارشاد ۔ سالک کا ایک سفر تو الی الاحوال ہے کہ اس پر احوال طاری ہوتے ہیں اور دوسرا من الاحوال ہے جس میں وہ سب احوال سلب ہو جاتے ہیں پھر اس کے بعد کو دوسرے نوع کے احوال عطا ہوتے ہیں اس کی ایسی مثال ہے جیسے باغ میں درختوں پر دو قسم کے پھول ہوتے ہیں ایک جھوٹا پھول ہوتا ہے وہ چند روز کے بعد جھڑ جاتا ہے پھر سچا پھول آتا ہے وہ باقی رہتا ہے اب اس پر پھل لگنے شروع ہوتے ہیں یا جیسے صبح صادق ہوتی ہے ایک کاذب جس کا نور جلدی زائل ہو جاتا ہے دوسری صادق جس کا نور بڑھتا ہے اسی طرح سالک پر دو حالتیں گذرتی ہیں ایک میں احوال ناقصہ عطا ہوتے ہیں اور دوسری میں ناقصہ سلب ہو کر احوال کاملہ عطا ہوتے ہیں ۔ اب یہ شخص پختہ ہو گیا اب اس کو حق ہے کہ لذائذ بھی کھائے اور عمدہ لباس بھی پہنے کیونکہ یہ ہر شئے میں تجلی حق کا مشاہدہ کرتا اور اس کا حق بھی ادا کرتا ہے ۔ انسان کا کمال تحصیل عدالت ہے ارشاد ۔ حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ قوت عقلیہ اور قوت شہویہ و قوت غضبیہ میں اعتدال کا درجہ حاصل کرے اگر اس میں افراط کا درجہ ہو یا تفریط کا تو یہ کمال نہیں بلکہ نقص ہے قوت عقلیہ میں تفریط کا درجہ حماقت ہے اور افراط کا درجہ جزیرہ ( بہت تیزی ) اور درجہ اعتدال کا نام حکمت ہے قوت شہویہ سے مراد وہ قوت ہے جو منافع کو حاصل کرنا چاہتی ہے اور قوت غضبیہ سے وہ قوت مراد ہے جو مضرتوں کو دفع کرنا چاہتی ہے اسی طرح قوۃ غضبیہ میں درجہ افراط کا نام تہوار ہے تفریط کا نام جبن ہے اعتدال کا نام شجاعت اور قوۃ شہویہ درجہ افراط کا نام فجور ہے اور تفریط کا نام محمود ہے اور درجہ اعتدال کا نام عفت ہے اور حکمت و شجاعت اور عفت تینوں کے مجموعہ کا نام عدالت ہے ۔