ملفوظات حکیم الامت جلد 21 - یونیکوڈ |
|
صفحہ نمبر 18 کی عبارت سے وہ مادہ بھی ضعیف ہو جاتا ہے ۔ شیخ کی دعاء و برکت کا درجہ اعانت کا ہے نہ کہ کفایت کا ( 5 ) شیخ کی دعا اور برکت کو بھی بڑا دخل ہے اصلاح میں لیکن اس کا درجہ محض اعانت کا ہے نہ کہ کفایت کا ۔ جیسے عرق سونف کا مرتبہ مسہل میں کہ محض عرق سونف بلا مسہل کے کار آمد نہیں یا طبیب اور مریض کی مثال لے لو اگر مریض دوا نہ پئے تو محض طبیب کی شفقت و توجہ سے مریض ہرگز اچھا نہ ہو گا ۔ یا استاد و شاگرد کی مثال لو کہ محض استاد کی توجہ سے سبق یاد نہیں ہوتا بلکہ شاگرد کے یاد کرنے سے ہی یاد ہو گا ۔ شیخ کا اصل کام تو صرف راستہ بتانا ہے ۔ باقی راستہ کا قطع کرنا تو سالک ہی کا کام ہے جیسے اندھے کو سوانکھا راہ بتاتا ہے گود میں اٹھا کر اس کو نہیں لے جاتا راستہ تو خود اس کے چلنے ہی سے قطع ہو گا ۔ استحضار و ہمت کا نسخہ اصلاح کے لئے اکسیر ہے ( 6 ) اخلاص و ہمت خلاصہ تصوف ہیں ان دونوں میں بھی اصل چیز ہمت ہے کیونکہ اخلاص پیدا کرنے کیلئے بھی ہمت کی ضرورت ہو گی اور ہمت کا معین استحضار ہے اور استحضار کی صورتیں مختلف ہیں جو صورت شیخ تجویذ کر دے اس پر عمل کرے ۔ مثلا کوتاہی پر دس رکعت یا کم و بیش نفل بطور جرمانہ ادا کرنا تا کہ جب دوسرا موقع کوتاہی کا پیش آئے تو جرمانہ کے خوف سے استحضار کی کیفیت پیدا ہو جائے اور جب استحضار ہو جائے فورا ہمت سے کام لے اور تقاضائے نفس کو مغلوب کرے اگر استحضار اور ہمت سے کام لے گا تو انشاء اللہ کوتاہیوں سے محفوظ رہے گا اور رفتہ رفتہ اصلاح ہو جائے گی اور ہر روز مطالعہ نزھۃ البساتین سے بھی قوت استحضار و ہمت کو پہنچتی ہے ۔ جو گر حضرت نے فرمایا ہے استحضار و ہمت کا سراسر اکسیر ہے اصلاح امت کا حال کی دو قسمیں ہیں ( 7 ) تصوف میں رسوخ اعمال اختیاریہ مطلوب ہے نیز مامور بہ محبت عقلی ہے نہ کہ طبعی ۔ حال کے دو معنی ہیں ۔ ایک تو کیفیت غیر اختیاریہ دوسرے رسوخ اعمال اختیاریہ ۔ دوسرے معنی میں حال کا ترتب لازم ہے کیونکہ وہ موعود ہے ففی الحدیث کذالک الایمان اذا خالطہ بشاشۃ القلوب و فی کلام اللہ فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام اور تصوف میں یہی حال مطلوب ہے ۔ جب کوئی شخص اعمال صالح بہ تکلف اختیار کرتا ہے رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت ہونے لگتی ہے اور کفیت راسخہ پیدا ہو جاتی ہے اور گو یہ کیفیت صالحہ مثلا محبت حق تعالی کے ساتھ پیدا کرنا