ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا : گائے بھی سات اَفراد کی جانب سے قربان کی جائے اَور اُونٹ بھی سات اَفراد ہی کی جانب سے قربان کیا جائے۔ عَنْ اَنَسٍ کَانَ اَصْحَابُ النَّبِیِّ ۖ یَشْتَرِکُوْنَ سَبْعَة فِی الْبَدْنَةِ مِنَ الْاِبِلِ وَ السَّبْعَةُ فِی الْبَدْنَةِ مِنَ الْبَقَرِ۔ ( شرح معانی الآثار ج ٢ رقم الحدیث ٦٢٢٠ ) حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کے صحابہ اُونٹ کی قربانی میں بھی سات شریک ہوتے تھے اَور گائے کی قربانی میں بھی سات ہی شریک ہوتے تھے۔ آج کل چونکہ اِختلاف کو ہوا دینے میں لوگوں کی رغبت زیادہ ہوگئی ہے اِس لیے وہ اِجماعی اَور طے شدہ مسائل کی بھی پروا نہیں کرتے چنانچہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اُونٹ کی قربانی میں دَس اَفراد بھی شریک ہوسکتے ہیں ۔دلیل یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ۖ کے ساتھ تھے ،عید الاضحی کا دِن آیا تو ہم گائے میں سات آدمی شریک ہوئے اَور اُونٹ میں دس آدمی (ترمذی ج١ ص ١٨٠ ، مشکٰوة ص ١٢٨)۔ اِس سے ثابت ہورہا ہے کہ اُونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ اِس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ حدیث صحت میں اُس پائے کی نہیں ہے جس پائے کی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے اِس لیے اِس حدیث کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ دُوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی علیہ الصلوٰة والسلام کا حکم ذکر ہوا ہے اَور حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اَجمعین کا عمل ذکر ہوا ہے اَور یہ معلوم نہیں کہ صحابۂ کرام نے حضور علیہ السلام کے حکم سے ایسا کیا تھا یا اپنے اِجتہاد سے لہٰذا ترجیح