ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
زیور پہننے کا فیشن : آج کل کچھ دِنوںسے نو عمر لڑکیوں میں زیور کا شوق کم ہو گیا ہے یہ نیا فیشن چلا ہے کہ نو عمر لڑکیاں آج کل کان وغیرہ ننگے رکھتی ہیں، چاندی کا زیور تو آج کل عیب شمار ہونے لگا، شرفاء کی لڑکیاں صرف سونے کا زیور پہنتی ہیں وہ بھی صرف کانوں میں دو ہلکے ہلکے بُندے اَور سارا بدن زیور سے ننگا ہے ہاں پیروں میں کچھ چاندی بھی ڈال لیتی ہیںکیونکہ وہ حقیر چیز ہے پیروں ہی میں رہنی چاہیے ۔ آج کل زیور میں لڑکیوں نے اِختصار کر لیا ہے اَور اِس مذاق کی اِبتداء میموں کی اِتباع سے ہوئی۔ میمیں زیور نہیں پہنتیں کیونکہ اُن کی قوم میں اِس کا رواج نہیں۔ حکمران قوم ہے اُن کو دیکھ دیکھ کر ہندوستانی عورتوں میں بھی یہ مذاق پیدا ہوگیا۔ اَور یہ اِس طرح کہ آج کل جابجا شفا خانے کھلے ہوئے ہیں جن میں زنانے شفا خانے بھی ہیں، ہندوستانی عورتیں وہاں جا کر میموں سے علاج کراتی ہیں اِس ذریعے سے اُن کے پاس آمدو رفت ہوتی ہے اَور جو زیادہ وسعت والے ہیں وہ میموں کو اَپنے گھروں میں بلاتے ہیں پھر ایک نے تو میموں کو دیکھ کر اُن کا طرز اِختیار کیا پھر اُس کو دیکھ دیکھ کر دُوسری عورتوں نے اَپنا رنگ بدلا۔ (اَلکمال فی الدین) اَلغرض اُن میں (میموں) کا یہ اَثر ہے کہ نو عمر لڑکیوں کو زیور کا خیال کم ہو گیا ہے۔ اِس کا منشاء کفایت شعاری ہر گزنہیں، کیا ساری کفایت شعاری زیور ہی میں رہ گئی۔ اچھا کپڑوں میں کفایت شعاری کیوں نہیں کی جاتی، جو لڑکیاں زیور کم پہنتی ہیں وہ کپڑوں میں بڑی رقم صرف کرتی ہیں۔ اِسی طرح گھر کی آرائش و زینت میں بھی خرچ کی پرواہ نہیں کرتیں اِس سے معلوم ہوا کہ اُن کا مقصود محض میموں کا اِتباع ہے۔ جس چیز میں وہ رقم صرف نہیں کر تیں اُس میں یہ بھی صرف نہیں کرتیں اَور جس میں اُن کو زیادہ غلو ہے اُس میں یہ بھی خرچ کی پرواہ نہیں کرتیں بلکہ یہ مذاق (اَور رواج) اِس دَرجہ غالب ہوا ہے کہ جن عورتوں میں زیادہ مالی وسعت نہیں بھی ہے وہ بھی معمولی کپڑوں اَور معمولی زیوروں ہی میں ایسی تراش خراش کرتی ہیں اَور ایسی وضع (طرز) سے اِس کو بناتی ہیں جس سے وہ میم