ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
اِس خراب ترین دَور میں اِتنا برا دَور جس میں بے عملی عام ہے اِس دَور میں بھی سخاوت مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ ہندؤوں کی کنجوسی : ہندئووں میں وہ بات نہیں پائی جاتی تو١٩٦٠ ء میں ١٩٦٢ء میں جب چین نے حملہ کیا تھا تو چندے کیے اُنہوں نے ہندئووں سے بھی مسلمانوں سے بھی، مسلمانوں نے زیادہ دیا ہندئووں نے دیا ہی نہیں ،وہاں بڑے بڑے مِل ہیں شوگرمِل ہندئووں کے ہیں اِنکم ٹیکس مارے بیٹھے تھے لیکن نہیں دیے چندے اَور کہیں کہہ دیا کہ ہم اِتنا مقروض ہیں ایک مِل آنر نے جنگ کے لیے پچیس ہزار دیے ۔ بعد میں میں گیا تھاہندوستان تو اُدھر جاکر یہ حالات معلوم ہوئے تھے ۔ اَب مسلمانوں کی فطرت میں یہ چیز داخل ہوگئی ہے اُنہیں پتہ بھی نہیں ہوتا ،دین پر بھی عمل نہیں کرتا ہوتا نماز بھی نہیں پڑھتا ہوتا مگر(کچھ نہ کچھ) سخاوت کرلیتا ہے ،آپ جائیں گے مسجد بنانے کے لیے چندہ(طلب کریں گے تو ) وہ دے دے گا، مدرسے کے لیے وہ دے دے گا چاہے نماز بھی نہ پڑھتا ہو دین کے کام کے لیے جہاد کے لیے کوئی اَور فنڈ ہو اُس کے لیے وہ دے دے گا ،یہ ''سَمَاحَة '' جو ہے اِس گھٹیا دَور میںجبکہ اِنسان کا تو آج یہ حال ہوا ہوا ہے پاکستان کی حدود میں کہ ہر آدمی اپنی ذات کو جانتا ہے اَور اپنی ذات کو نفع پہنچانا چاہتا ہے باقی سب چیزیںبعد میں، ملک بھی بعد میںدیکھا جائے گا خیال ہی نہیں آتا ملک کا ،بس اَپنی ذات کے تحفظ کا رہ گیا ہے ۔تو اِس حالت میں بھی یہ ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مدارس بھی چل رہے ہیں مساجد بھی بن رہی ہیں آباد بھی ہیں یہ کیا ہے ؟ یہ سخاوت جو ذہنوں میں رچی ہوئی آئی ہے جس کا کوئی پتہ بھی نہیں چلتا اُسے کہ میرے اَندر یہ بات ہے بھی یا نہیں مگر تحت الشعور وہ چلی آرہی ہے۔ یہ سرورِکائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے جو چودہ سو سال پہلے سبق دیا تھا وہ وِرا ثتًا چلا آرہا ہے اَور اِس گھٹیا دَور میں بھی اُس کے آثار پائے جاتے ہیں ۔اِس کے بعد اَور سوالات بھی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ ہم سب کو اَعمالِ صالحہ کی توفیق دے، اِیمان پر قائم رکھے معرفت عطا فرمائے اَور آخرت میں رسول اللہ ۖ کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین، اِختتامی دُعاء ..........