ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
علامہ اِقبال نے اِن ہی سائنسی خزانوں کی طرف اِشارہ کرکے مرثیہ کہا ہے : حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی نہیں دُنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں تیرے آبا کی جنہیں یورپ میں گر دیکھیں تو دِل ہوتا ہے سیپارا غنی روزِ سیاہِ پیر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدۂ اَش روشن کند چشم زُلیخا را یعنی جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اَولاد حضرت یوسف علیہ السلام جب آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کے قابل ہوئے اَور بڑے ہوئے تو بجائے اِس کے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے وہ زُلیخا کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اَور حضرت یعقوب علیہ السلام کی غم فراق میں بینائی بھی جاتی رہی۔اِسی طرح یہ کتابیں اَور تحقیقات جن سے اِیجادات ظہور میں آتیں جب وقت آیا تو ہم سے چھن گئیں ہم بجز کف ِاَفسوس ملنے کے اَور کچھ نہیں کرسکتے اَور دُشمنانِ اِسلام اِن سے فائدہ اُٹھارہے ہیں ،سچ ہے ( تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ) ١ ''تو جسے چاہے سلطنت عطاء کردے اَور جس سے چاہے سلطنت چھین لیوے اَور جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذِلت دے۔ '' آقائے نامدار ۖ سے پہلے بھی دیگر اَنبیائے کرام نے ہی خلق ِ خدا کو ضروریات ِ زندگی سکھائیں بہت سی صنعتیں جیسی جیسی ضرورت ہو تی رہی اَنبیائے کرام تعلیم فرماتے رہے۔ '' خلاء '' اَور اَنبیاء علیہم السلام : بعض اَنبیاء کی طرف مشہور فلاسفہ کی نسبت بھی کی گئی ہے کہ وہ اُن اَنبیاء کے شاگرد تھے مثلاً یہ ١ پ ٣ رکوع١١