ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
ۖ نے جو جواب دیا بہت سادہ جواب ہے حُرّ وَ عَبْد آزاد لوگ بھی ہیں غلام بھی ہیں، جو بھی آجائے اللہ کا بندہ اِنسان ہے ذوی العقول میں ہے مکلف ہے وہ آجائے تو اُس کو میں اِس معاملے میں داخل کرلیتا ہوں یعنی اِسلام میں داخل کرلیتا ہوں اُس کا اِیمان اَور اِسلام معتبر ہے کوئی شرط نہیں جو چاہے اِسلام قبول کرلے ہدایت کی طرف آجائے چھوٹا ہو بڑا ہو حتّٰی کہ غلام ۔ غلاموں کا دَرجہ تو جانوروں کے برابر تھا، اِسلام نے بڑھایا ہے کہ جو تم کھائو وہ اُنہیں بھی کھلائو جو تم پہنتے ہو وہ اُنہیں بھی پہنائو اَگر اُس نے کچھ پکایا ہے محنت کی ہے تو خادم ہے تو اُس کھانے میں سے اُسے بھی دیں کیونکہ اُس نے محنت تو کی ہے اُس کے پکانے میں ، بہت چیزیں اِسلام نے بتلائیں اَور بڑا دَرجہ اُنہیں دے دیا ،بہت بڑا دَرجہ اَور ڈبل اَجر کی بشارت دی ، ایک اللہ تعالیٰ کے اَحکام بجالانے کی اَور دُوسرے آقا کے کام کرنے کی، بظاہر یہ ہے کہ وہ غلام خدمت کرتا ہے اُس کے بدلے میں کھاتا ہے پیتا ہے اَور رہتا ہے اَور پہنتا ہے لیکن یہ نہیں ،اللہ نے اُس پر اَجر رکھ دیا ہے بظاہر یہ ہے کہ وہ کام کررہا ہے اَور بہ باطن یہ ہے کہ اَجر مِل رہا ہے اَور ڈبل اَجرمِل رہا ہے۔ اِسلام کیا ہے ؟ : وہ صحابی جو ہیں حضرت عمرو بن ِ عَبَسَہ رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں میں نے دَریافت کیا مَا الْاِسْلَامْ اِسلام کیا ہے ؟ اَور اِتنا تو سب جانتے ہیں کہ کلمہ پڑھ لینا یہ اِسلام ہے اللہ کو ایک ماننا اُس کے سب نبیوں کو حق جاننا جو وہ لائے ہیں پیغام اللہ کے پاس سے وہ سچ تھا حق تھا، سب نبیوں پر اِیمان، جنہیں ہم جانتے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں جنہیں نہیں جانتے وہ بہت زیادہ ہیں مگر اِیمان ہمارا سب پر ہے تو جواب میں آقائے نامدار ۖ نے اِن کو نیا جواب دیا حسب ِ حال یعنی پوچھنے والا اَگر جانتا ہو ایک چیز تو اُس کے جواب میں وہی چیز دوہرانی اِس سے کوئی فائدہ خاص نہیں ہوتا بلکہ اُس کے جواب میں وہ بات بتائی جائے جو اُس کے علم میں نہیں۔ تواِرشاد فرمایا طِیْبُ الْکَلَامِ وَ اِطْعَامُ الطَّعَامِ گفتگو ہو شیریں اَور عمدہ یعنی مہمل باتیں نہ ہوں، لغویات نہ ہوں، گالی گلوچ، بہتان، غیبت، فضول باتیں یہ نہ ہوں تو عمدہ بات ہو اَور عمدہ دونوں