ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
اُسی حدیث کو دی جائے گی جس میں صراحتًا نبی علیہ السلام کا حکم ذکر ہوا ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت اِبن ِ عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے اِستدلال تام نہیں کیونکہ اُس موقع پر جو جانور ذبح کیے گئے تھے وہ عید الاضحی کی قربانی کے بھی ہوسکتے ہیں اَور یہ بھی اِحتمال ہے کہ خوشی کے موقع پر کھانے کے لیے ذبح کیے گئے ہوں کیونکہ صحابہ سفر کی حالت میں تھے اَور مسافر پر قربانی واجب نہیں، اِس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حدیث صریح نہیں ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح بھی ہے صریح بھی ہے۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ خود حضرت اِبن ِ عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعًا ایک حدیث مروی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اُونٹ میں بھی سات اَفراد ہی شریک ہوسکتے ہیں دس نہیں وہ حدیث یہ ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَاہُ رَجُل فَقَالَ اِنَّ عَلَیَّ بَدْنَةً وَ اَنَا مُوْسِر بِھَا وَلَا اَجِدُھَا فَاَشْتَرِیْھَا فَاَمَرَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّبْتَاعَ سَبْعَ شِیَاہٍ فَیَذْبَحُھُنَّ۔( اِبنِ ماجہ ص ٢٣٣ باب کم یجزی من الغنم عن البدنة ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ کے پاس ایک صاحب آئے اَور اُنہوں نے عرض کیا کہ مجھ پر بدنہ واجب ہے اَور میں مالدار بھی ہوں لیکن مجھے بدنہ نہیں مِل رہا کہ میں اُسے خریدوں (اِس صورت میں میرے لیے کیا حکم ہے ؟ ) نبی علیہ السلام نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ سات بکریاں خرید کر ذبح کر دیں۔ ''بدنہ'' کا عام طور پر اِطلاق اُونٹ پر ہوتا ہے بسا اَوقات گائے پر بھی اِس کا اِطلاق کر لیا جاتا ہے۔اِس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ نبی علیہ السلام نے سات بکریوں کو بدنہ کے قائم مقام قرار دیا اَور یہ ظاہر ہے کہ ایک بکری ایک فرد کی جانب سے ذبح کی جاتی ہے تو سات بکریاں سات اَفراد کی جانب سے ذبح ہوں گی۔اِس لحاظ سے اُونٹ اَور گائے بھی سات اَفراد کی جانب ہی سے ذبح کیا جاسکیں گے دس کی جانب سے نہیں۔