ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
( وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَةً وَّیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) ١ ''اَور گھوڑے پیدا کیے اَور خچریں اَور گدھے کہ اِن پر سوار ہو اَور زینت کے لیے۔ اَور (اُنہیں بھی) پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے۔ '' اُس وقت موٹرکار، ریل، جہاز وغیرہ نہیں تھے لیکن یہ سب اِس جملہ میں داخل ہیں کہ حق تعالیٰ وہ چیزیں پیدا فرمائیں گے جو تم نہیں جانتے۔ اَب یہ دیکھیے کہ قرآنِ حکیم کی آیات میں بکثرت جگہ جگہ یہ ذکر موجود ہے کہ حق تعالیٰ نے اِنسانوں کے لیے فلاں فلاں چیزیں مسخر فرمائی ہیں اَور ساتھ ہی دعوت ِ فکر و تدبر دی گئی ہے اَور یہ بھی اِرشاد ہوا ہے کہ یہ سب خداوند ِ کریم کی قدرت ِ کاملہ کی نشانیاں ہیں۔ ''تسخیر''کا مطلب : ''تسخیر'' عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ''تابع ِارادہ'' کرلینے کے ہیں۔ کسی کو اَپنے اِرادہ کے تابع کرکے اُس سے کام لیا جاتا ہے اَور فائدہ اُٹھایا جاتا ہے اِس لیے تسخیر کا لفظ قرآنِ حکیم میں فائدہ اُٹھانے کے معنٰی میں بھی آیا ہے۔ تو گویا یہ لفظ دونوں معنٰی (تابع ِارادہ کرنے اَور فائدہ اُٹھانے کے معنٰی) میں اِستعمال ہوتا ہے مثلاً ایک آیت ِ مبارکہ میں اِرشاد ہے : ( وَالَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْکَبُوْنَ۔ لِتَسْتَوا عَلٰی ظُھُوْرِہ ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّکُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُوْلُوْا سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَاکُنَّا لَہ مُقْرِنِیْنَ۔ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ) ٢ ''اَور جس نے سب چیز کے جوڑے بنائے اَور تمہارے لیے کشتیوں اَور چوپایوں کو بنایا جس پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم اُس کی پیٹھ پر (ٹھیک طرح) سواری کرو پھر اپنے رب کا اِحسان یاد کرو جب اُس پر بیٹھ چکو اَور کہو پاک ذات ہے وہ جس نے اِس کو ہمارے بس میں کردیا اَور ہم اِس کو قابو میں نہ لاسکتے تھے اَور ہم کو اپنے رب کی طرف پھرجانا ہے۔ '' ١ پ ١٤ سُورہ نحل رکوع ١ ٢ پ ٢٥ سُورہ زُخرف رکوع ١