ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
زیور پہننے کی ہوس : عورتوں کی حالت یہ ہے کہ زیور سے کسی وقت اُن کا پیٹ نہیں بھرتا، کانوں میں بالیاں بھی ہیں بُندے بھی ہیں اُن کو کچھ حِس ہی نہیں کہ اِس سے کان ٹوٹیں گے یا کیا ہوگا، چاہے کان جھک پڑیں مگر اِن سب کوزیور لادنا فرض ہے، ناک میں نتھ بھی ہے اَور لونگ بھی ہے پھر چاہے لونگ سے ناک میں آگ ہی لگ جائے مگر کیا مجال ہے جو کسی وقت اُترے۔ پھر اِس زیور کے شوق میں اُن کو ساری مصیبتیں آسان ہوجاتی ہیں یعنی کان چھدوانے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے مگر لڑکیاں ہنسی خوشی سب کام کرالیتی ہیں بلکہ اَگر کوئی اُن سے یہ کہے کہ کان چھدوا کر کیا کروگی، خوامخواہ تکلیف اَپنے سر مول لیتی ہو، کان مت چھدواؤ تو اُس سے لڑنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ (اَلکمال فی الدین ص ٨٣) ایک لطیفہ : ایک بَنیے کا قصہ مشہور ہے کہ اُس نے اَپنی بیوی سے کہا کہ ذرا سِل کا بٹہ اُٹھا لاؤ۔ اُس نے کہا کہ سِل کا بٹہ مجھے سے کیسے اُٹھے گا بھاری پتھر سے کہیں میری کمر میں لچک نہ آجائے، اُس نے پتھر توخود اُٹھا لیا لیکن سِل کو کسی بہانے سے باہر لے گیا اَور ایک سُنار کو بُلا کر کہا کہ اِس سِل کے اُوپر سونے کے پتر خوبصورتی کے ساتھ جڑدے اَور اِس میں ایک مضبوط زنجیر ڈال دے، جب وہ تیار ہو کر آگئی تو اُسی بیوی کو لاکر دی کہ لو ہم نے تمہارے واسطے ایک زیور بنوایا ہے اِسے پہن لو تو اُس نے خوش ہو کر اُسے گلے میں ڈال لیا اَور گلے میں لٹکائے پھرنے لگی، گردن بوجھ سے جھکی جاتی تھی مگر زیور کے شوق میں سب تکلیف گوارہ تھی۔ اِس کے بعد بنیے نے جوتا نکال کر خوب خبر لی کہ کمبخت اُس روز تو تجھ سے سِل کا بٹہ بھی نہ اُٹھتا تھا اَور آج سِل کو گلے میں لٹکائے پھرتی ہے آج تیری کمر میں کچھ نہیں ہوتا۔ خیر یہ قصہ تو گھڑا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر جس نے گھڑا ہے اُس نے عورتوں کے مزاج کو خوب سمجھا ہے۔ حقیقت میں اُن کو زیور کی حرص ایسی ہے کہ اَگر سونے کا زیور بہت بھاری بھی ہو تو یہ کبھی اُس کو پہننے سے اِنکار نہ کریں گی گو گردن اَور گلہ کیسا ہی دُکھتا رہے۔ (اَلکمال فی الدین ص ٨٤)