ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
یورپ کے فرسودہ اَفکار : دَراصل مسلمانوں میں یہ خیالات کہ چاند آسمان میں جما ہوا ہے وغیرہ وغیرہ یونان(یورپ) سے آئے ہیں۔آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں جب حضرت معاویہ شام کے گورنر تھے تو ترکی پر حملے کیے گئے اَور کافی علاقہ فتح بھی ہوا اَور حضرت معاویہ کی عرصہ سے رائے تھی کہ بعض جزائر بھی فتح ہونے چاہئیں اُنہوں نے حضرت عمر کے دَورِ خلافت میں اِجازت چاہی تھی کہ ہمیں اِجازت دیں کہ ہم جزیرۂ قبرص فتح کرلیں،یہاں عیسائی آکر بار بار چھیڑچھاڑ کرتے رہتے ہیں اَور یہ ہم سے اِتنے نزدیک ہیں کہ اُن کے کتوں کے بھونکنے کی آواز بھی آجاتی ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ہمیں بحری جنگ لڑنی پڑے گی جس کا ہمیں تجربہ نہیں ہے کہیں ہمیں زیادہ نقصان نہ اُٹھانا پڑے اَلبتہ حضرت عثمان نے اپنے زمانہ میں اِجازت دے دی اَور جزیرۂ قبرص (جس پر آج کل یونانیوں اَور ترکوں کا جھگڑا ہے جیسے کشمیر پر ہندوستان و پاکستان کا ہے) فتح ہوگیا اَور عہد ِ صحابہ ہی میں قسطنطینیہ جسے اِستنبول کہتے ہیں جہاں سے یورپ شروع ہوتا ہے فتح ہوگیا پھر اِس سے آگے بھی یورپ کے علاقے مغلوب و مقہور ہوگئے اُن میں یونان بھی تھا۔ یونان تہذیب کا مرکز رہا ہے اِس میں بڑے بڑے نامور فلسفی سائنسدان گزرے تھے مثلاً اَرسطو، اَفلاطون، سقراط وغیرہ۔ فلاسفۂ یونان کے دو نظریے تھے : ایک یہ کہ چاند آسمان میں ہے دُوسرا یہ کہ چاند آسمان کے نیچے ہے۔ جب یہ علاقہ مغلوب ہو اتو یہ خیالات اَور فنونِ عقلیہ میل جول کی وجہ سے مسلمانوں میں آنے لگے اَور عقائد میں بھی طرح طرح کی بحثیں چھڑنے لگیں جنہیں ''علمِ کلام'' کی صورت میں ضبط کیا گیا ہے اَور یہ کتابیں مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔ یورپی سائنس کا نقصان اَور علماء کی طرف سے اِس کا رَد : حسن بصری، اِمام اعظم، اِمام اَبویوسف کے زمانہ میں لوگ فلسفہ سیکھتے رہے اَور طرح طرح کی موشگافیاں کرتے رہے اَور فرقۂ معتزلہ وجود میں آتا چلاگیا۔