ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
سنت ِ نبویہ یا مسائلِ دِینیہ : صحابہ کرام کے زمانہ میں علم ِ فقہ کوئی جداگانہ علم نہ تھا، اُن ہی مسائلِ دینیہ کے بیان کو چاہے فقہ کہا جائے اَور چاہے حدیث سے تعبیر کیا جائے حضرت فاروقِ اَعظم نے اِس علم کی اِشاعت بھی کی اَور اِشاعت کے ساتھ سب سے بڑا کام یہ کیا کہ ایسے اِنتظامات فرمائے کہ رسولِ خدا ۖ کی طرف غلط طور پر کسی چیز کی نسبت نہ ہو سکے اَور دین میں اِفترا پردَازی کا دَخل نہ ہونے پائے ،اِسی وجہ سے حضرت معاویہ نے اپنے زمانے میں ایک فرمان جاری کیا تھا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جو حدیثیں رائج تھیں اُن کے علاوہ اگر کوئی نئی روایت کوئی شخص بیان کرے گا تو اُس کو سزا دی جائے گی۔اَب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی مساعی ِجمیلہ دیکھو : (١) صوبوں کے حکام کو مقرر کرتے وقت فرمایاکرتے تھے دیکھو میں تم کو مسلمانوں کا رہنما اَور تربیت کرنے والا بنا کر بھیجتا ہوں، مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کی طرف سے غفلت نہ کرنا۔ (٢) ممالک ِمفتوحہ میں معلّم اَور قاضی مقرر کرنے میں تاخیر نہ کرتے تھے اَور بڑے بڑے اَکابر صحابہ کو تعلیمِ دین کے لیے اَطراف و جوانب میں بھیجتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کو کوفہ بھیجا، حضرت عبادہ بن صامت کو فلسطین کا قاضی مقرر کیا، حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مغفل بھی اُن دس ہزار صحابہ میں سے تھے جن کو حضرت عمر نے ہمارے وطن بصرہ میں علم ِ دین سکھانے کے لیے بھیجا تھا۔ حضرت اَبوموسیٰ اَشعری جب بصرہ کی حکومت پر مقرر ہو کر بصرہ پہنچے تو فرمایا کہ '' اے لوگو ! مجھے عمر بن خطاب نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ تم کو تمہارے رب کی کتاب پڑھاؤں اَور سنت کی تعلیم دُوں۔ '' (٣) کبھی کبھی اَپنے فرمانوں میں جو حکام صبح کو بھیجتے تھے ضروری مسائلِ دینیہ بھی لکھ دیا کرتے تھے اَور یہ حکم ہوتا تھا کہ اِس فرمان کی مسلمانوں میں خوب اِشاعت کی جائے ۔اِمام مالک نے مؤطا میں ایک گشتی فرمان آپ کا نماز کی تاکید اَور اَوقات ِ نماز میں روایت فرمایا ہے جو عجیب چیز ہے۔