ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
بننے کی عادت بری ہے، حدیث میں ہے : لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ کِبْرٍ یعنی جس شخص کے دِل میں ذرّہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا (نیز زیور کے پہنے سے کبھی) دُوسرے کی تحقیر مقصود ہوتی ہے اَور جب اِس سے کسی کی تحقیر کی گئی تو مساوات نہیں رہی اَور قومی ترقی کا اَصل الاصول مساوات ہے۔ ٭ ملکی نقصان یہ ہے کہ زیور کی محبت حُبِّ مال ہے اَور جس قوم میں مال کی محبت ہے وہ کوئی کام ملکی ترقی کا نہیں کر سکتی۔ ٭ اَور ذاتی نقصان تو سب سے پہلے یہ کہ اِس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے، ہر وقت خطرہ میں ہے کہ کوئی لُوٹ نہ لے ،کوئی چرا نہ لے، کہیں کھو نہ جائے۔ دُوسرا نقصان یہ ہے کہ زیور پہن کر عورتیں کچھ کام نہیں کر سکتیں اچھی خاصی اَپاہج بن جاتی ہیں، جب وہ ہلنے جلنے کے بھی کام کی نہ رہیں تو صحت کی جو گت ہوگی وہ معلوم ہے (یہ صحت کا نقصان ہے) ۔ تیسرا نقصان یہ ہے کہ بعض دفعہ زیور ٹوٹ جاتے ہیں یا کھوجاتے ہیں اَور بناتے وقت سُنار اُن میں کھوٹ مِلاتے ہیں ،یہ سب مالی نقصان ہوا۔ اِن دُنیوی نقصانات کے علاوہ دینی نقصان تو اِس قدر ہیں کہ کوئی نفع اِس کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتا۔ اِضاعة وقت اَور اِسراف (فضول خرچی) اَور مال کی محبت اَور ریا، سمعہ (شہرت، دِکھلاوا) اَور تکبر وتفاخر ،یہ اِس کے نتائج ہیں جس کو ہم لوگوں نے بہت ہی معمولی سمجھ رکھا ہے اِن کے متعلق جو وعیدیں قرآن و حدیث میں وارِد ہیں اُن کو کوئی دیکھے تو کبھی زیور کا نام نہ لے مگر طبیعتوں میں ایسا اِنقلاب ہوا ہے کہ دُنیوی ودینی نقصانات کے باوجود عورتوں کو دِن رات اِس سے فرصت ہی نہیں۔ (ملفوظاتِ اَشرفیہ مطبوعہ ملتان ص ٢٨٦) زیور اِستعمال کرنے کاشرعی حکم : عورتوں کو زیور پہنانا جائز ہے لیکن زیادہ نہ پہننا بہتر ہے جس نے دُنیا میں نہ پہنا اُ س کو