ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
خلیفہ ہارون الرشید کے بعد اُن کے بیٹے مامون الرشید نے یونان سے کتابیں منگاکر اِن فنونِ عقلیہ کو حد سے زیادہ ترقی دی جس سے بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ فرقۂ معتزلہ نے صحیح و غلط کی تمیز کے لیے عقل کو معیار بنایا حتّٰی کہ اُنہوں نے علوم اَور عقائد ِ اِسلامیہ میں تاویلات شروع کردیں جو تفسیر یا حدیث اُن کی عقل کے مطابق ہوتی تھی اُسے مانتے تھے ورنہ حدیث کا اِنکار کردیتے تھے چاہے وہ ائمہ و فقہاء و محدثین کے نزدیک معتبر ہی کیوں نہ چلی آرہی ہو۔ معیار ''وحی'' ہے'' عقل'' نہیں : یہ وہی عقائد و خیالات تھے جو آج نیچری اَور منکرِ حدیث طبقہ کے ہیں اُن کے نزدیک صحیح و غلط کا معیار'' عقل'' ہے وحی نہیں اَور ہمارے نزدیک معیارِ خطاء و صواب'' وحی'' ہے اَور عقل کو ہم وحی کے تابع رکھتے ہیں باوجودیکہ یہ فتنہ فرقۂ معتزلہ کی صورت میں سامنے آچکا تھا لیکن پھر بھی علماء ِدین فلسفہ سیکھنا سکھانا پسند نہیں کرتے تھے اَور علمِ کلام کی مباحث سے اَکثر اَکابر منع ہی فرماتے رہتے تھے حتّٰی کہ اِمام اَحمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا زمانہ آیا اَور اُس میں ایک بحث مسئلہ'' خلق ِقرآن ''پر چھڑی ۔ اِمام صاحب اَور دیگر حضرات کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائی گئیں بعض کو شہید بھی کیا گیا۔ آپ کے زمانہ میں منبر اَور عہدۂ قضاء دونوںہی فرقۂ معتزلہ کے قبضہ میں آگئے ١ کیونکہ خلیفہ اِسی عقیدہ کا تھا اَور اُس دَور میں یہ فتنہ اِنتہائی عروج پر تھا۔ اِمام صاحب بیان فرماتے ہیں کہ وہ خلیفہ کے سامنے جب پیش ہوئے تو وہاں بعض فرقۂ معتزلہ کے بڑے بڑے لوگ موجود تھے قاضی بھی فلسفی تھا وہ میرے دلائل کا جو میں نے قرآن و حدیث سے پیش کی تھیں کہ ''قرآنِ پاک کلام اللہ ہے مخلوق نہیں ہے'' جواب نہ دے سکے تو قاضی وغیرہ نے کہا کہ '' تمہارے پاس بس یہ قرآن و حدیث ہے۔'' اِمام اَحمد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اِس کے بعد اُس نے اپنے دلائل دیے جو (فلسفیانہ ہونے کے باعث) میں نہیں سمجھ سکا۔ ١ یعنی سیاسی اَور مذہبی دونوں کی قیادت اُن کے ہاتھ آگئی۔محمود میاں غفرلہ