ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
غرض جب یہ فتنہ شباب پر آیا تو علماء نے وہی بطلیموسی فلسفہ سیکھا جس کو یہ لوگ سیکھتے سکھاتے تھے پھر اِسی فلسفی رنگ میں جواب لکھنا شروع کیا اَور یہ تحریرات آج تک پڑھی پڑھائی جاتی ہیں۔ حدیث و تفسیر کی کتابوں میں جہاں جہاں چاند سورج وغیرہ کا ذکر آتا ہے وہاں اِسی فلسفہ کی روشنی میں بحث کی گئی ہے لہٰذا غیر شعوری طور پر علماء کا یہ ذہن بنتا گیا کہ ساتوں آسمانوں میں سے ہر آسمان میں ایک ایک ستارہ یا سیارہ ہے۔ سورج، عطارد، زہرہ، مریخ، چاند وغیرہ اِن میں گڑے ہوئے ہیں حالانکہ قرآنِ پاک یا اَحادیث ِ صحیحہ میں کہیں یہ نہیں بتلایا گیا۔ قرآن کا اِعجاز : قرآنِ پاک کی آیات میں ایک ایسا اِجمال بھی ہے کہ جو کسی دَور میں اُسے سمجھنے میں رُکاوٹ نہیں بنتا لہٰذا وہ ہر زمانہ میں ایسا رہا ہے کہ چھوٹی بڑی اِستعداد والے سب ہی سمجھتے رہے ہیں اَور ہر زمانہ میں وہ صادق نظر آتا رہا ہے یہ قرآنِ پاک کا عجیب اِعجاز ہے ورنہ جب کوئی بات اِجمال کے ساتھ بیان کی جاتی ہے تو سمجھنی مشکل ہوتی ہے مگر قرآنِ پاک میں یہ بات نہیں ہے وہ پھر بھی بسہولت سمجھ میں آجاتا ہے اَور اُس کے کلماتِ پاک ہر زمانہ میں ہر دَور میں ہر نئی بات پر صادق آتے رہے ہیں اَور آتے رہیں گے مثال کے طور پر پہلے زمانہ میں آسمان پر کوئی نہیں چڑھا تھا مگر قرآنِ پاک میں اِرشاد ہے : ( مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقًا حَرَجًا کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ) (پارہ ٨ رکوع ٢ ) ''یعنی جسے حق تعالیٰ گمراہی پر چھوڑدیں تو اُس کا سینہ (گُھٹا ہوا) تنگ کردیتے ہیں گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔'' اِس آیت کا مطلب گزشتہ پرانے زمانے میں بھی سمجھ میں آتا تھا کہ بہت بلندی پر دَراز چڑھائی کی وجہ سے سینہ تنگ ہوجاتا ہے لیکن آج کے دَور میں اَور زیادہ واضح ہوگیا کہ واقعی جب بلندی پر پرواز کی جاتی ہے تو ٤٥ ہزار(فٹ) کے قریب اُوپر جانے پر آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے اَور سینہ گھٹنے لگتا ہے یہی قرآنِ پاک کا اِعجاز ہے۔ نیز قرآنِ پاک میں اِرشاد ہے :