ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
(٨) فوجی لوگوں کے فرائض میں قرآنِ مجید کی تعلیم بھی تھی ،صوبوں کے حکام سے اَور فوجی اَفسروں سے ہر سال فارغ التحصیل حفاظِ قرآن کی فہرست طلب فرماتے تھے چنانچہ حضرت سعد نے اَپنی فوج کے تین سو آدمیوں کے نام بھیجے اَور حضرت اَبو موسیٰ نے بصرہ سے ایک سال میں دس ہزار حفاظ کی فہرست بھیجی ،آپ اِن سے بہت خوش ہوئے اَور اِن کا وظیفہ بڑھا دیا۔ (مِلل و نِحل لابن حزم) ظاہر ہے کہ اِس سے دُوسرے حکام ِ صوبہ کو کس قدر ترغیب ہوئی ہوگی اَور آئندہ سال کتنی لمبی لمبی فہرستیں ہر صوبے سے آئی ہوں گی اَور حفاظ ِ قرآن کی مجموعی تعداد حضرت فاروق کے زمانے میں کہاں تک پہنچی ہوگی اَور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ تعلیم صرف الفاظ ِ قرآنی کی نہیں ہو سکتی جیسا کہ آج کل حافظ ِ قرآن اُس کو کہتے ہیں جو صرف الفاظ ِ قرآنی کو یاد کرلے ،بھلا ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام کسی کو قرآنِ مجید پڑھادیں اَور صرف الفاظ یاد کرانے پر قناعت کریں۔ (٩) بڑی تاکید اِس بات کی فرماتے تھے کہ قرآنِ مجید اُن ہی لوگوں سے پڑھاجائے جن کی سند کا سلسلہ صحیح طور پر رسولِ خدا ۖ تک پہنچتاہو۔ (١٠) ایک مرتبہ ایک اِعرابی کو قرآنِ مجید کی ایک آیت میں غلط اِعراب پڑھتے ہوئے سنا تو آپ نے حکم جاری کیا کہ زبانِ عرب کے قواعد کی تعلیم دی جائے علم ِ نحو کے اِ یجاد کا یہی سنگ ِ بنیاد ہے۔ (١١) قرآنِ مجید کی خدمت میں تو آپ کو اِس قدر شغف تھا کہ اِس کی کتابت کا خاص اہتمام فرماتے تھے ،خفی قلم سے لکھنے کو منع فرماتے تھے۔ ( اِتقان ) (١٢) تفسیرِ قرآنِ مجید کی تعلیم میں بھی جو اَصل چیز تھی یعنی آیات ِ اَحکام کی توضیح اَور اُن کے مطالب کی تفہیم اِس کی طرف تو آپ نے پوری توجہ فرمائی اَلبتہ غیر ضروری اَشیاء مثلاً بیانِ قصص یا شانِ نزول وغیرہ تو اِس طرف آپ کی توجہ کم ہوئی اِس لیے صاحب ِ اِزالة الخفاء فرماتے ہیں : ''اِمام تفسیرِ قرآنِ عظیم پس ذر وہ سنام آں بردست حضرت فاروقِ اعظم بظہور آمدہ۔'' حضرت فاروقِ اعظم سے جو تفسیریںآیات ِ قرآنیہ کی مروی ہیں جس کا دِل چاہے اِزالة الخفاء میںدیکھے ایک بڑا ذخیرہ ہے جو خود اِس بات کی کافی شہادت ہے کہ قرآنِ مجید پر کتنی توجہ آپ کی تھی۔