ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
اُن سے جو فیوض و برکات صادِر ہو رہے ہیں اَور ہوتے رہیں گے اِن ہی کے رہینِ منت ہوں گے اَور اُن سب کا ثواب اِن کے اعمال نامے میں لکھا جاتا رہے گا۔ اِس سلسلہ میں حضرت مولانا سیّد حسین احمد صاحب مدنی نے سارے ملک کا دَورہ بھی کیا، اِیمان آفریں اَور وَلولہ اَنگیز تقریریں بھی کیں اَور اپنے ذاتی اَثر و رُسوخ اپنی تقریروں اَور اپنے طرزِ عمل سے مسلمانوں کو اِس ملک میں رہنے اَور اپنے ملک کو اپنا سمجھنے اَور حالات کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا ............الخ۔'' (مدینہ ٩ جنوری ١٩٥٨ ء ) مولانا اَبو الحسن صاحب نے اُو پر اِرشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں دو ہی چار دَور ایسے گزرے ہیں جب مسلمانوں کی اَور اِسلام کی بقاء کا سوال آگیا ہے اَور ١٩٤٧ء کے ہنگاموں کو اِسی قسم کے اَدوار میں شمار کیا ہے لہٰذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اُن میں سے ایک دَور اَور اُس کے رہنما کے اعظم کی طرف اِشارہ کردُوں تاکہ حضرت شیخ الاسلام کے عزم اَور اِستقلال کا مقام سامنے آجائے۔ اُنہی قیامت خیز اِنقلابی اَدوار میں سے سب سے پہلا دَور جناب رسول اللہ ۖ کے وصال کے بعد کا ہے اَور یہ وہ وقت تھا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ جن میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی ہیں اِس صدمہ ٔجانکاہ سے اِس قدر متاثر تھے کہ اُن کی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا کہ حضور ۖ بھی وفات پا سکتے ہیں ایسی حالت میں حضرت اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب کو ہوش دِلایا اَور اِعلان کردیا۔ وَمَا مُحَمَّد اِلاَّ رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعَْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّاللّٰہَ شَیْئًا۔ (الآیة ) ''محمد ۖ اللہ کے رسول ہیںآپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں اگر وہ مرگئے یا قتل ہوگئے تو کیا بے دین ہوجاؤ گے لہٰذا جو بھی بے دین ہوجائے گا وہ اللہ تعالیٰ کو ذرّہ برابر نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ '' اِسکے بعد قبائلِ عرب کا مرتد ہوجانا اَور دُشمنانِ اِسلام کا مدینہ منورہ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر سر اُٹھانا اَور اِسی قسم کے دُوسرے واقعات ایسے تھے کہ مسلمانوں اَور اِسلام کی بقاء کا سوال اُٹھنے لگا تھا