ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
اِنسان ہنستاکھیلتا اپنے گھرسے نکلتاہے،ذہن ودماغ میں دُوردُورتک موت کاتصوربھی نہیں ہوتا لیکن ناگہانی طورپرکسی ایسے حادثہ کاشکارہوجاتاہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے اپنے آخری سفرکے لیے روانہ ہوناپڑتاہے۔ ذراسوچیے توسہی !کیاہم نے اِس سفرکی ضروری تیاریاں کررکھی ہیںاَوروہاں کی سُرخ رُوئی یا شاد کامی کے بارے میں اپنے اعمال کودیکھتے ہوئے ہمیں اعتمادہے ؟ کہیں ایساتونہیں کہ نئے سال کی خوشیوں میں ڈوب کراَوردُنیاکی ر عنائیوں میں گم ہوکرہم موت ہی کوبھول گئے ہوں، خداکرے ایسانہ ہو، لیکن اگرایساہورہاہے توخداراغفلت کے اِس دَبیزپردے کو جلد اَز جلد اپنے دماغ سے اُتاردیجیے اَوراپنے دل پرہاتھ رکھ کراَعمال کامحاسبہ کیجیے۔ ہماری مصروفیات کیاہیں ؟ ہم میں سے کتنے نوجوان اَورعمررسیدہ لوگ صبح سے شام تک ایسے لایعنی مشاغل میں گرفتاررہتے ہیں جن کا دینی فائدہ تودَرکنار،کوئی دُنیوی نفع بھی نہیں ہوتا،کوئی مخرب اَخلاق فلموں کو دیکھنے میں اپناوقت ضائع کررہاہے،کوئی حیاء سوزناول اَورجھوٹے قصّے کہانی کی کتابوں میں مست ہوکراپنی توانیاں صرف کررہاہے، کسی نے ہوٹل پرتبصرے بازی کی مجلس آراستہ کررکھی ہے،کوئی چوراہے پردوستوں کی ٹولی بنائے کھڑاہے،کوئی ٹی وی سکرین کے سامنے کھیل کے میدان پرنظریں جمائے ہوئے گھنٹو ں گھنٹوں کے لیے بیٹھا ہے،کوئی ریڈیو کان میں لگاکرپل پل کی خبریں لے رہاہے اَورکوئی اپنے موبائل فون ہی پر لطف اَندوز ہورہا ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جوموبائل پروقت ضائع نہ کرنے کاپختہ عزم کرلیتے ہیںلیکن جب کھلوناہاتھ میں آتاہے توسارے عزائم نسیاًمنسیاہوکررہ جاتے ہیں۔غرض اِس طرح کے نہ جانے کتنے مشاغل ہیںجووقت جیسی متاع ِگراں مایہ کابے دریغ اِستحصال کررہے ہیں۔ہمیں اِس طرح کے لغویات میں مشغول ہوتے وقت نبی کریم علیہ الصلوة و السلام کایہ فرمان ِمبارک ذہن نشین رکھناچاہیے کہ :''اِنسان کے قدم قیامت کے دِن اُس وقت تک حساب کی جگہ سے ہٹ نہیں سکتے جب تک اُس کی عمرکے بارے میں اُس سے یہ سوال نہ کرلیا جائے کہ یہ قیمتی لمحات کہاں گزارے؟''(ترمذی شریف رقم الحدیث ٢٤١٩)۔(باقی صفحہ ٦٣ )