Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011

اكستان

41 - 65
قسم اَوّل کے منکرات  : 
(١)  تعزیہ بنانا  :  اِس کی وجہ سے طرح طرح کا فسق و شرک صادر ہوتا ہے۔ بعض جہلاء کا اعتقاد ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اِس میں حضرت اِمام حسین رونق اَفروز ہیں اَور اِس وجہ سے اُس کے آگے نذر و نیاز رکھتے ہیں جس کا   مَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ  میں داخل ہوکر کھانا حرام ہے۔ اُس کے آگے دَست بستہ تعظیم سے کھڑے ہوتے ہیں، اُس کی طرف پشت نہیں کرتے، اُس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، اُس کے دیکھنے کو زیارت کہتے ہیں اَور اِس قسم کے واہی تباہی معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں۔ اِن معاملات کے اعتبار سے تعزیہ اِس آیت کے مضمون میں داخل ہے  اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ  یعنی کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو جس کو خود تراشتے ہو۔ اَور طرف ماجرا یہ ہے کہ یا تو اُس کی بے حد تعظیم و تکریم ہورہی تھی اَور یا دفعةً اُس کو جنگل میں لے جاکر توڑ پھوڑ برابر کیا۔ معلوم نہیں آج وہ ایسا بے قدر کیوں ہوگیا، واقعی جو اَمر خلافِ شرع ہوتا ہے وہ عقل کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ بعضے نادان یوں کہتے ہیں کہ صاحب اِس کو حضرت اِمام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے ساتھ نسبت ہوگئی اَور اُن کا نام لگ گیا اِس لیے تعظیم کے قابل ہوگیا۔ جواب اِس کا یہ ہے کہ نسبت کی تعظیم ہونے میں کوئی کلام نہیں مگر جبکہ نسبت واقعی ہو مثلاً حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کا کوئی لباس ہو یا اَور کوئی اُن کا تبرک ہو ہمارے نزدیک بھی وہ قابلِ تعظیم ہیں اَور جو نسبت اپنی طرف سے تراشی ہوئی ہو وہ ہرگز اسبابِ تعظیم سے نہیں ورنہ کل کو کوئی خود اِمام حسین رضی اللہ عنہ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تو چاہیے کہ اُس کو اَور زیادہ تعظیم کرنے لگو، حالانکہ بالیقین اُس کو گستاخ و بے اَدب قرار دے کر اُس کی سخت توہین کے دَرپے ہوجائوگے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نسبت ِکاذبہ سے وہ شے معظم نہیں ہوئی بلکہ اِس کذب کی وجہ سے زیادہ اہانت کے قابل ہوتی ہے۔ اِس بناء پر اِنصاف کرلو کہ تعزیہ تعظیم کے قابل ہے یا اہانت کے۔ 
(٢)  معازف و مزامیر کا بجانا  :  اِس کی حرمت حدیث میں صاف صاف مذکور ہے اَور باب اَوّل میں وہ حدیث لکھی گئی ہیں اَور قطع نظر خلافِ شرع ہونے کے عقل کے بھی تو خلاف ہے۔ معازف و مزامیر تو سامانِ سرور ہیں، سامانِ غم میں اِس کے کیا معنی؟ یہ تو درپردہ خوشی منانا ہے۔ ع   برچنیں دعوائے اُلفت آفریں 
(٣)  مجمع فساق و فجار کا جمع ہونا  :  اِس میں وہ فحش واقعات ہوتے ہیں کہ ناگفتہ ٔبہ ہیں۔ 
(٤)  نوحہ کرنا  :  اِس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ اَبوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
3 حرف اول 4 1
4 درس حديث 6 1
5 حرم مکہ کی اِبتدائی حالت : 7 4
6 حضرتِ عباس چاہ زم زم کے متولی : 7 4
7 حضرت اَبو ذر کے اِسلام لانے کا قصہ : 8 4
8 حضرت عمر نے دِیوار بنوائی : 8 4
9 کفار کی تنگ نظری اَورعدمِ برداشت : 9 4
10 بنو اِسرائیل کی مختصر تاریخ : 10 4
11 بنی اِسرائیل پر اللہ کی پکڑ : 10 4
12 اَنصار کی مختصر تاریخ : 11 4
13 یمن سے نقل مکانی : 11 4
14 یہودی سود خور، ظالم ،بے حیاء : 11 4
15 بے حیاء یہودیوں کی خوش فہمی : 12 4
16 اَنصار کا قبولِ اِسلام میں سبقت لے جانا : 12 4
17 تعلیم ِدین کے لیے صحابی کی مدینہ منورہ آمد : 12 4
18 ہجرت کیوں فرض ہوئی؟ 13 4
19 یمن کے حکمران کی آمد ،آپ کے لیے مکان بنایا اَور وصیت نامہ لکھا : 14 4
20 علمی مضامین سلسلہ نمبر٤٧ 15 1
21 اِسلام کا اِقتصادی نظام 15 20
22 سوالات و جوابات 15 20
23 اِقتصادی اُصول 16 20
24 سیاسیات اَور نظام ِ حکومت کے بنیادی اُصول 18 20
25 بنیادی حقوق 18 20
26 (١٨) مذہبیات : 19 20
27 جہاد 20 20
28 تشریحات و اِقتباسات 20 20
29 کمیونزم :(COMMUNISM) 20 20
30 سوشلزم : (SOCIALISM) 21 20
31 کیپٹیلزم : (CAPITALISM) 21 20
32 اِمپیریلزم : (IMPERIALISM) 21 20
33 قرآنِ کریم میں عادت اللہ بتلائی گئی ہے : 22 20
34 بینکاری سسٹم سودی رائج کیا جائے گا یا غیر سودی؟ 24 20
35 اِسلام میں مساوات کا تصور کہا ں تک ہے 24 20
36 کیا غلامانہ تصور اِسلام کا صحیح ہے 25 20
37 قسط : ١٨ اَنفَاسِ قدسیہ 26 1
38 قطب ِ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدصاحب مدنی کی خصوصیات 26 37
39 عزم و اِستقلال : 26 37
40 قسط : ٤ پردہ کے اَحکام 31 1
41 عورت کے لیے پردہ عقل و فطرت کا مقتضی ہے 31 40
42 بے پردگی کا ثمرہ : 31 40
43 عورتوں کو آزادی دینے کی خرابی : 33 40
44 بے حیائی ،بے باکی و بے غیرتی : 34 40
45 بے پرد گی کے حامی : 34 40
46 مرد عورت کے درمیان مساوات کا بھوت : 35 40
47 کیا پردہ تعلیم اَور دُنیوی ترقی کی راہ میں رُکاوٹ ہے : 35 40
48 کیا پردہ عورت کے لیے قیدو ظلم ہے؟ 36 40
49 پردہ میں غلو اَور عورت پر ظلم، مردوں کی ذمہ داری : 37 40
50 پردہ کی وجہ سے بے خبری اَور بھولے پن کا شبہ : 37 40
51 وفیات 38 1
52 محرم الحرام کی فضیلت 39 1
53 قسم اَوّل کے منکرات : 41 52
54 قسط : ٤،آخری صحابہث کی زِندگی اَور ہمارا عمل 45 1
55 حضرات ِصحابہث کی قابلِ تقلید اِمتیازی صفات 45 54
56 پیغمبر علیہ السلام کی حد درجہ تعظیم : 45 54
57 حکمِ نبوی کی فوری تعمیل : 47 54
58 ہمارے آقا ۖ کا تو طریقہ یہی ہے : 47 54
59 نقوشِ قدم کی تلاش : 48 54
60 ذِکرِحَسنَین رضی اللہ عنہما 50 1
61 اَکابر کی نظر میں تجوید کی اہمیت 51 1
62 مدرسہ صولتيه مکہ مکرمہ کا آغاز : 51 61
63 مدرسہ صولتیہ کی تعمیر : 51 61
64 حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی کی آمد : 52 61
65 آغازِ تدریس : 52 61
66 حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی کی مدرسہ سے محبت : 53 61
67 لمحہ فکریہ : 53 61
68 شیخ القراء اِبراہیم سعد مصری : 53 61
69 شیخ علی الضبّاع مصری : 53 61
70 خواب میں حضرت علی مرتضی کی اَذان : 54 61
71 حضرت قاری محمد شریف صاحب : 54 61
72 اِرتقائی اہم اصول : 54 61
73 ہفتہ وار اِصلاحی محفلِ قراء ٰت : 54 61
74 ایک محفل کا واقعہ : 55 61
75 55 61
76 حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی : 56 61
77 دُکھی دِل کی بات : 56 61
78 ہر بیماری کا علاج ہے : 57 61
79 تجوید کی اہمیت : 57 61
80 دُوسرا واقعہ : 57 61
81 تجوید وہ جادُو ہے جو سر چڑھ کے بولے : 58 61
82 بندہ راقم تقی : 58 61
83 نئے اِسلامی سال کاپیغام 59 1
84 دُنیاکی حقیقت : 59 83
85 منزل کیاہے ؟ 61 83
86 ہماری مصروفیات کیاہیں ؟ 62 83
87 اَخبار الجامعہ 63 1
88 بقیہ : نئے اِسلامی سال کا پیغام 64 83
Flag Counter