ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
یہ تو راقم تقی نے بھی دیکھا کہ اُن کا خطبہ حالات ِحاضرہ پر روشنی ڈالتا اَور اُمت ِ مسلمہ کی رہنمائی کرتا کبھی اُنہوں نے کچی بات نہیں کی۔ اِنہی کے دَور میں شیخ محمد السبیل اِمام مقرر ہوئے مگر خطبہ شیخ خیاط ہی دیتے تھے۔ یہ مدرسہ صولتیہ کے لیے کتنے بڑے اِعزاز کی بات ہے اِسی مدرسہ کے قاری مختلف جگہوں پر قاضی تھے اِس مدرسہ کا اِمتیازی نشان تجوید وقراء ت ہے اَور دُوسرے علوم ثانوی درجہ میں تو تھے مگر لزوم کے درجہ میں۔ حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی نے مدرسہ صولتیہ کو مرکز القراء بنادیا تھا فَلِلّٰہ الْحَمْدُ ۔ حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی : حضرت تھانوی کو حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی کے لگائے ہوئے باغ یعنی تجوید وقراء ٰت کے طلباء کی تلاوتوں نے اِتنا متأثر کیا کہ آپ فن ِ تجوید کے لیے ٹھہر گئے چنانچہ آپ نے پڑھنے میں ایسا کمال حاصل کیا کہ جب مدرسہ کی بالائی منزل میں مشق کرتے تو کوئی اَندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی پڑھ رہے ہیں یا حضرت تھانوی۔ آپ نے تجوید ہی پر بس نہیں کی بلکہ قراء ٰتِ سبعہ کی بھی تکمیل کی اَور مبتدی طلباء کے لیے پاؤ پارہ میں قراء ٰت ِسبعہ کا اِجراء لکھا جس کا نام تَنْشِیْطُ الطَّبَعْ ہے۔ حضرت تھانوی نے مدارس عربیہ کے نصاب ِ تعلیم سے متعلق تقریر کی جس میں آپ نے شکایت کی کہ مدارسِ عربیہ میں تجوید وقراء ٰت کا کوئی اہتمام نہیں ہے جس کی وجہ سے عالم تو بن جاتے ہیں مگر قرآن پڑھنا نہیں آتا۔ حضرت کی اِس تقریر کا یہ اَثر ہوا کہ دارُالعلوم دیوبند میں ١٣٢١ھ میں شعبہ تجوید کا اِجراء ہوا اَور مظاہر العلوم میں بھی یہ شعبہ قائم ہوا بَحَمْدِ اللّٰہِ الْکَرِیْم ۔ دُکھی دِل کی بات : راقم تقی نے اپنے ٥٦ سالہ دَورِ تدریس میں دیکھا کہ شعبہ کتب کے طلباء بلکہ بعض بڑے اَساتذہ تک بڑی حقارت و نفرت سے تجوید وقراء ٰت کا اِستہزاء کرتے ہیں الامان والحفیظ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس جیسا بیکار اَور فضول اَور کوئی علم نہیں۔