ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
اَکابر کی نظر میں تجوید کی اہمیت ( جناب قاری محمد تقی الاسلام صاحب دہلوی ،جامعہ اَشرف المدارس ،کراچی ) بَعْدَ الْحَمْدِ وَالصَّلٰوةِ ! حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی رحمة اللہ علیہ ١٨٥٧ء کی جنگ ِآزادی کے زمانہ میں ہندوستان سے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، وہاں دیکھا کہ عربوں کی نظر میں ہندوستانی علماء کی کوئی وقعت نہیں، گری نظر سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ یہ تھی کہ ہندی علماء قرآن غلط پڑھتے ہیں اَور مدارس ِعربیہ میں تجوید کا کوئی اہتمام نہیں جبکہ تجوید کی فرضیت قرآن و حدیث اَور اِجماعِ اُمت سے ثابت ہے اَور کسی نے اِس کا اِنکار نہیں کیا مگر شعبۂ کتب کے طلباء تجوید کو فضول سمجھتے ہیں، بڑے اَساتذہ بھی کہتے ہیں علم سیکھو تجوید میں کیا رکھا ہے اَور وعظوں میں کچھ اَور ہی رنگ ہوتا ہے۔ مدرسہ صولتيه مکہ مکرمہ کا آغاز : حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی رحمة اللہ علیہ نے پہلا کام یہ کیا کہ حرم مکی میں مدرسہ قائم کیا اَور ہندوستانی بچوں کو جمع کر کے پڑھانا شروع کیا۔ اُس زمانہ میں قاری عبدالقادر صاحب مدراسی فاضل جامعہ اَزہر مصر سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ تشریف لائے یہ علم و فن کے با کمال قاری تھے۔ حضرت مہتمم صاحب نے مدرس رکھ لیا۔ مدرسہ صولتیہ کی تعمیر : حضرت مہتمم صاحب کی ترغیب پر بنگال کی ایک خاتون'' صولت النساء ''نے اپنا سارا سرمایہ اِسی مدرسہ کی تعمیر پر لگادیا، مدرسہ صولتیہ اُسی کے نام پر ہے۔ قاری عبدالقادر صاحب مدراسی کی ہر وقت کی محنت اَور لگن نے مدرسہ کو چار چاند لگادیے خلوص و للہیت کے جذبہ نے بچوں کا تلفظ اَور لہجہ اَیسا قابلِ تعریف بنادیا کہ