ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
حضرت اِبن زبیر رضی اللہ عنہ نے زمانہ قحط میں ایسا کیا تھا۔ س : کیا غلامانہ تصور اِسلام کا صحیح ہے ؟ غلام کا کیا قصور ہے ؟ اُس کے حقوق اِتنے کیوں نہیں جو دُوسرے کے ہیں ؟ کیا وہ اِنسان نہیں ؟ اگر اِنسان ہے تو پھر اُس پر یہ ظلم کیسے رَواہے ؟ ج : اِسلام سے پہلے یہ رواج تھا کہ لوگ اپنی اَولاد کو بیچ دیا کرتے تھے اِس طرح آزاد شخص اپنی اَولاد کو غلام بنادیا کرتا تھا اَفریقہ سے سوڈانیوں کو خرید کر لایا جاتا تھا مگر اِسلام نے اِسے قطعًا ناجائز قرار دیا ہے حتی کہ اگر کوئی کافر اپنی اَولاد کو بیچ دے اَور مسلمان خرید لے تو بھی وہ بچہ یا بچی غلام اَور باندی نہیں بنیں گے وہ اُس شخص کے ''پروردہ'' کہلائیں گے غلام یا باندی نہیں کہلائیں گے۔ ٭ اِسی طرح اِسلام سے پہلے یہ طریقہ بھی تھا کہ آدمی کو اَغواء کر کے بیچ دیا کرتے تھے جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اِس طریقہ کو بہت سختی سے حرام قرار دیا گیا۔ ٭ تیسری صورت یہ تھی کہ جنگ میں قید ہو کر آنے والوں کو غلام اَور باندی بنایا جاتا تھا جنگی قیدی نہ بنایا جاتا تھا۔ تو آج یہ صورت دُشمن کے روّیہ پر موقوف ہے اگر ہمارا دُشمن خدانخواستہ ہمارے قیدیوں کو غلام بنائے گا تو ہم بھی(جوابًا) اُس کے قیدیوں کو غلام بنائیں گے اَور اگر وہ فقط قید رکھے گا تو ہم بھی فقط قید رکھیں گے لیکن اگر وہ ہمارے جنگی قیدیوں کو تکلیف میں رکھے گا تو ہم اُس کے قیدیوں کو تکلیف میں نہیں رکھ سکتے۔ اِسلام نے تکلیف پہنچانے کی اِجازت نہیں دی بلکہ ہم اُن کے ساتھ حسنِ سلوک ہی کا مظاہرہ کریں گے اَور قیدی کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ حامد میاں غفرلہ