ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
عرب بھی شوق سے سنتے۔ حضرت مہتمم صاحب کی فکر ِسلیم نے حقارت و نفرت والے ماحول کو اُلفت و مودّت سے بدل دیا۔ جب مدرسہ کے جلسہ میں ہندوستانی بچے تلاوت کر رہے تھے تو عرب بھی جھوم رہے تھے۔ حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی کی آمد : اِنقلاب ِ دہلی کے بعد آپ کے تایا جان خاندان کے چھوٹے بڑے سترہ اَفراد کو لے کر مکہ مکرمہ پہنچے۔ مدرسہ کے متصل رباط ِ برما میں پورے خاندان کو سکونت کی اِجازت مل گئی۔ اُس وقت آپ کی عمر چار پانچ سال تھی۔ قاری صاحب کے تایا جان کا تین سال بعد اِنتقال ہو گیا۔ آپ کے والد محمد بشیر خان اَور حضرت مہتمم صاحب کا خوب جوڑ مِلا۔ آپ کے والد صاحب جِلد سازی کے بہترین گاریگر تھے۔ مہتمم صاحب کی کوشش سے کام کرنے کی قانونی اِجازت مل گئی، کام خوب چمکا۔ آپ نے تینوں بچے (قاری عبداللہ، قاری عبدالرحمن مولف فوائد مکیہ، قاری حبیب الرحمن،رحمہم اللہ) مہتمم صاحب کے حوالہ کر دیے۔ آپ نے اُن کا پورا پورا خیال رکھا اَور اَعلیٰ درجہ کی کامیابی سے آراستہ کیا۔ قاری عبدالقادر صاحب مدراسی نے بھی شوق ومحنت سے پڑھایا اَور کوئی لہجہ تک نہیں چھوڑا جو قاری عبداللہ صاحب کو نہ سکھایا ہو، آپ کو'' اِمام الفن'' بنادیا۔ آج کے دَور میں شروع ہی سے لہجوں کی لگن لگ جاتی ہے جس سے فن کا جنازہ نکل گیا۔ اَب تو بعض علمی مراکز میں درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ شاطبیہ، دُرہ، طیبہ تو پڑھارہے ہیں مگر مشق وحدر کی کوئی فکر نہیں جس کی وجہ سے تجوید کے زمانہ میں جو تلفظ بنتا ہے ضائع ہوجاتا ہے۔ پڑھنے والوں کو اِس کا اِحساس نہیں ہوتا وہ خود کو عشرہ کا قاری سمجھتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ آغازِ تدریس : حضرت قاری عبداللہ صاحب مکی کو فراغت ِ تعلیم کے بعد اُستاذ محترم کی سفارش پر حضرت مہتمم نے شعبہ قرآن میں معین مدرس رکھا۔ اپنے بچوں پر خوب محنت کی آپ بھی اُستاذ کی طرح اَنتھک محنت کرتے تھے۔